• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ماہ ربیع الاول اور میلاد النبی ﷺسے متعلق مسائل

استفتاء

1.ہمارے ہاں جس طریقے سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا میلاد منانے کاثبوت قرآن وحدیث یا صحابہ ؓوغیرہ سے ہے؟

  1. اس موقع پر جلوس نکالنا، گھروں اورمساجدمیں جھنڈیاں لگانا،لائٹیں لگانا،کیک کاٹنا،کھانے بانٹنا وغیرہ کیسا ہے؟

3۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ عشق رسول ﷺ کااظہار ہے ۔کیا یہ اظہار جائز ہے؟

4۔کیا میلاد کانفرنسوں میں شرکت کرنا اورعمرے کاٹکٹ حاصل کرنا جائز ہے؟

5۔ کیا ربیع الاول کے مہینے میں سیرت کانفرنس کرنا جائز ہے؟

6۔ایسے موقع پر اڑوس پڑوس سے جو کھانے آ جاتے ہیں ان کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

7۔ایک حدیث مشہورہے کہ ’’جوربیع الاول کی خوشخبری دے گا اسے جنت کی خوشخبری ہے‘‘کیا یہ بات درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ذکر کرنا باعث برکت کام ہے اس سے محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ مقاصد شرعیہ میں سے ہے پیدا ہوتی ہے اور محبت سے اتباع اور پیروی کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ آپ کی سیرت طیبہ کے واقعات میں پیدائش کا واقعہ بھی ہے لیکن سیرت کے اس بیان کے ذکر کو کسی وقت کے ساتھ خاص کرنا یا کسی مخصوص صورت کا پابند کرنا اس باعث برکت کام کو بھی خراب کر دیتاہے،شریعت میں جو چیزیں جہاں تک ہیں وہیں تک رکھنا ضروری ہے ۔اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں:

  1. ہمارے ہاں جومیلاد منایاجا رہا ہے وہ نہ تو آپ ﷺ سے ثابت ہے نہ حضرات صحابہ ؓسے اورنہ ہی ائمہ ؓاربعہ وفقہاء سےنہ ہی اس کے جواز کےلیے معتبرشرعی دلائل موجود ہیں ،اس لیے یہ بدعت ہے۔

2.اس موقع پر جلوس نکالنا، جھنڈیاں لگانا، کیک کاٹنا بدعت کی ترویج و اشاعت ہے۔کیک کاٹنےمیں غیر مسلموں کےساتھ مشابہت بھی ہے،لہذایہ تمام امور بھی ناجائز ہیں۔

  1. عشق رسولﷺ کا اظہار شریعت کے دائرے کےاندررہ کر کرنا ضروری ہے، حدود شریعت سے تجاوز جائز نہیں، دین صرف اچھے جذبات کا نام نہیں بلکہ جذبات کے اظہار کے لئے اختیار کردہ طریقوں کا جائز ہونا بھی ضروری ہے،لہذا مذکورہ اموراختیار کرکے عشق رسول ﷺ کااظہار کرناجائز نہیں۔

4۔ان میں شریک ہونا ناجائزہےاورعمرہ کاٹکٹ حاصل کرنا بھی جائز نہیں۔

  1. اس مہینے میں سیرت کانفرنس سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہے ،کیونکہ اگر صحیح العقیدہ لوگ بھی یہ کام کریں اوران کے ذہن میں وقت کی تخصیص نہ بھی ہو تب بھی ایک تو اہل بدعت کے ساتھ مشابہت ہےدوسرے لوگوں کے لئے غلط فہمی کا باعث ہے۔

6.جب یہ کھانا اللہ تعالی کے نام پر پکایا گیا ہواور تقسیم کرنے میں محض ایصال ثواب مقصود ہو تو وہ کھانا حرام تو نہیں لیکن اس عمل سے بھی پرہیز لازم ہے،کیونکہ

  1. شریعت نے تو کسی دن کی تخصیص نہیں کی لیکن ہم نے شریعت کے برخلاف اپنی طرف سے عملی تخصیص کرلی۔
  2. خیرالقرون کے عمل کے خلاف ہے۔
  3. بدعتیوں اور گمراہوں کے غلط عمل کو تائید فراہم ہوتی ہے اور ان کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔

ایسا کھانا اول تو قبول نہ کیا جائے ،اگر کرلیا ہو یاقبول کرنے کی کوئی خاص مجبوری ہو تو بہتر ہے کہ استعمال نہ کیا جائے،اور کسی غریب کودیدیاجائے۔اگرایسابآسانی ممکن نہ ہو توپھرکھانے کو ضائع ہونے سے بچانے کےلیے خود استعمال کرنے کی بھی گنجائش ہے۔

7۔یہ بات غلط مشہور ہوگئی ہے جس کاکوئی ثبوت نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved