- فتوی نمبر: 3-310
- تاریخ: 05 نومبر 2010
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
ایک شخص شدید غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو تین مرتبہ یہ الفاظ کہتاہے کہ ” میں نے تمہیں سات طلاقوں سے چھوڑا”۔کیا ان الفاظ سے تین طلاقیں ہوجائیں گی۔ جبکہ میاں بیوی کی آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہے۔ شوہر نے کسی کے بھرکانے پر گھبراکر ایسا کیا ہے۔
مزیدبراں دونوں کی اولاد جوا ن ہے اور دونوں پھر سے اپنا گھربسانا چاہتے ہیں۔ کیا اس میں نکاح کی کوئی گنجائش ہے۔ اگر نکاح کی گنجائش نہیں تو کیا بیوی اپنے بچوں کے ساتھ رہ سکتی ہے۔جبکہ شوہر اس گھر میں نہ آئے؟
بچے جوان ہیں جو خود کمانے والے ہیں اور اپنی والدہ کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس حالت میں عورت کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ رہنا بہتر ہے یا اپنے ماں باپ کے گھر؟ اگر عورت کے ماں باپ عورت کے اپنے بچوں کے ساتھ رہنے پر رضامند نہ ہوں تو کیا عورت اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنے بچوں کے ساتھ والدین کی اجازت کے بغیر رہ سکتی ہے ؟ اس میں کوئی شرعی ممانعت ہے کہ نہیں؟قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیلاًجواب ارسال فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، مرد کو فقط تین طلاقیں دینے کا اختیار ہے اگر اس سے زیادہ طلاقیں دیں تب بھی تین طلاقیں ہی پڑیں گی، اور کسی کے دھمکانے سے یا دباؤمیں آکر زبان سے طلاق دینے سے بھی طلاق پڑجاتی ہے۔ نیز اب نکاح کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے اور عورت اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں رہ سکتی ہے اور شوہر بھی جبکہ دونوں علیحدہ کمرے میں رہیں اور عورت کے والدین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوناچاہیے۔ کیونکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہے۔
ومحله المنكوحة أي ولو معتدة من طلاق رجعي أو بائن غير الثلاث في حرة.
وأيضاً: أومكرها فإن طلاقه صحيح.(درمختار)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved