• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نشہ کی حالت میں طلاق

استفتاء

مندرجہ ذیل واقعات کے بعد کیا میں ابھی اپنے شوہر کے نکاح میں ہوں یا مجھے طلاق ہوچکی ہے؟

میری شادی 1995 میں ہوئی تھی اور میری شوہر شراب پینے کے عادی ہیں 1999 میں انہوں نے نشے کی حالت میں مجھے ایسے چڑتے ہوئے "طلاق، طلاق، طلاق ” کہہ دیا۔میں نے سوچا کہ اس بات کے لیے میں کچھ صدقہ کردیتی ہوں میں نے بڑوں کو پوری بات  بتائی اور صدقہ کرنے کو کہہ دیا لیکن جب انہوں نے یہ بات سنی تو کہہ دیا  کہ ان میں طلاق ہوچکی ہے۔ میرے اس وقت دو بچے تھے میں نے اصرار کیا کہ میں نہیں مانتی کوئی راستہ ہوگا، پھر میرے والد صاحب نے سعودی عرب کے کسی مفتی صاحب کو فتویٰ دکھایا جس میں ہمیں ساتھ رہنے کی گنجائش مل گئی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کو ایک دفعہ طلاق ہوگئی ہے ۔ اب بس دو کی گنجائش ہے ۔ پھر ہماری زندگی اپنے معمول پر رہی لیکن شراب کو لیکر بہت جھگڑے رہتے تھے۔لیکن پھر سے ایسا ہواکہ 2005 میں پھر وہی حالت اور وہ گھر پے نہیں تھے میں فون پر ان کو گھر آنے کا کہہ رہی تھی۔ تو انہوں نے مجھے پھر سے فون پر ہی کہہ دیا” طلاق ، طلاق، طلاق دی” میں نے جلدی سے فون بند کرنے کی کوشش  کی لیکن میں نے مکمل طور پر آوازسن لی تو بہت ڈر گئی کہ اب بس دو دفعہ کی ہوچکی ہے۔ ایک رہ گئی میرے اس وقت تک چار بچے ہوگئے تھے۔ لیکن ہمارے درمیان بہت زیادہ جھگڑے رہتے تھے۔ بہت رو رو کر وقت گذرا۔ پھر اسی سال میں اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان آگئی اور وہ کویت میں تھے۔ وہ گرمیاں کویت میں رہتے تھے اور سردیاں پاکستان میں گزارتے۔لیکن جو وقت پاکستان میں رہتے اسی طرح لڑتے جھگڑتے ٹائم گذرتا رہا۔ بس شراب پی کر روزانہ جھگڑا رہتا، ویسے وہ صحیح حال میں اپنے پیارکا احساس دلاتے  اور مانتے بھی کہ میں غلط ہوں لیکن شام کو پھر سے ویسے ہوجاتے۔ پھر  2008 میں انہوں نے پھر سے اسی نشے والی حالت میں مجھے جھگڑتے ہوئے بولے اور میں نے زور سے انکے منہ پرہاتھ رکھا اور روکنے کی کوشش کی ،مگر یہ الفاظ میرے بچوں اور میری ایک بہن جیسی دوست ہے انہوں نے اوران کے بیٹے نے سنے۔ پھر وہ واپس چلے گئے ۔پھر اگلے سال آئے پھر اسی طرح جھگڑاہوا، اور انہوں نے پھر سے ایسے الفاظ استعمال کیے ، اس بار بچوں نے بھی یہ الفاظ سنے ، بعض اوقات تو وہ دوسروں کو بھی کہہ دیتے تھے کہ میں نے تو اس کو طلاق دے دینی ہے۔ بس میں نے نہیں رکھنا ۔

اب بس میری ایک سال سے یہ حالت ہے کہ میں نے پھر سوچ لیا کہ اب میں خلع لوں گی، لیکن وہ بھی میری غصے کی حالت میں اور افسوس اور زندگی سے تنگ آکر لیا تھا فیصلہ جب وہ آئے تھے پچھلے سال تو میں نے خود کو بہت بدل لیا ہواتھا میں نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیاتھا۔ اورا ن کو کہا بھی کہ بس اب میرے دل میں آپ کے لیے بس ہمدردی ہے پیا ر نہیں۔ یا صرف بچوں کی ذمہ داری نبھاؤ۔اتنے سال میں نے بس زبردستی اپنے اس رشتے کو سنبھالا۔ لیکن اب میرے خاوند کو احساس ہوچکاہے اپنی غلطیوں کا وہ جماعت پر چلے گئے ہیں چالیس دنوں کے لیے۔

اب مجھے بتائیں کہ کیا میں اپنے خاوند کے نکاح میں ہوں کہ نہیں؟ اور اس سال وہ  پاکستان نہیں آئے وہ کویت میں  ہیں۔ اور طلاق کے الفاظ جب  بھی بولے نشے میں بولے اور ان  کی زبان پراکثر یہ الفاظ آجاتے ،کبھی میرے سامنے کبھی بچوں کے سامنے میری غیر موجودگی میں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

واضح رہے کہ حرام نشے کی حالت میں دی گئی طلاق ائمہ اربعہ اور جمہور علماء کے ہاں واقع ہے اور مذکورہ صورت ایسی ہی ہے۔

أما السكران بطريق محرم وهو الغالب فأن شرب الخمر عالمابه، مختارا لشربه أو تناول المخدر من غير حاجة أو ضرورة عندالجمهور غيرالحنابلة فيعقع طلاقه في الراجح في المذاهب الأربعة عقوبة وزجرا عن ارتكاب المعصية ولأنه تناوله باختياره من غيرضرورة.

وقال زفر والطحاوي من الحنفية وأحمد في رواية عنه والمزني من الشافعية وعثمان وعمربن العزيز لا يقع طلاق السكران لعدم توافر القصد والإرادة.(الفقه الاسلامی ،ص:6884)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved