• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)مرحومہ غیرمحرم کاچہرہ دیکھنا(2)بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ احمد حسن نظامی نے تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا ہوا ہے اور لوگوں میں مفتی مشہور ہے جبکہ ایک مدرسہ میں تدریس و افتاء کا کام بھی کرتا ہے۔

ابھی چند دن قبل بندہ کی ایک محرم عزیزہ کا انتقال ہوا جن کے جنازہ میں بندہ بھی شریک ہوا، وہاں بندہ سے چند کام ایسے ہو گئے جن کے بارے میں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ قابل گرفت ہیں یا نہیں؟

1۔ یہ کہ جب میت کو لایا گیا  تو منہ دکھانے کا عمل ہوا چونکہ مرحومہ خاتون تھیں اس لیے وہاں صرف خواتین ہی تھیں مگر مرحومہ کے شوہر و بچے  مرحومہ کے ایک ایک محرم کو بلا کر اندر بھیج رہے تھے کہ یہ تو تمہاری فلاں ہیں تم آخری دیدار کر لو، مجھے بھی بلایا اور منع کرنے کے باوجود کہ اندر عورتیں ہیں میں بعد میں دیکھ لوں گا، اندر بھیج دیا گیا، بندہ اندر گیا مگر ظاہر ہے کہ اندر خواتین تھیں اس لیے بس تھوڑا سا آگے جا کے واپس آگیا، مرحومہ کی ہلکی سی جھلک ضرور نظر آئی تھی۔

وہاں موجود بندہ کی ایک دوسری محرم خاتون نے بندہ کی اہلیہ سے کہا کہ فلاں بھی عورتوں میں آگیا ہے تو اہلیہ نے کہا کہ وہ آگے نہیں آئیں گے کہ اندر خواتین ہیں، اور ہوا بھی یہی تھا۔

2۔ یہ کہ چونکہ مرحومہ کے سسرال کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے ہے، اس لیے مرحومہ کی نماز جنازہ بریلوی مکتب فکر کی مسجد میں ہوئی، بندہ سے جب کوئی بریلوی امام کی اقتداء میں نماز کا سوال کرتا ہے تو ابھی تک بندہ منع کرتا ہے کہ نماز جیسی عبادت کو خطرہ میں نہ ڈالا جائے۔ مگر بندہ نے اس مسجد میں نماز ادا کی اگرچہ امام کی اقتداء نہیں کی اپنی الگ نماز پڑھی مگر بہرحال ظاہر میں، میں ان کے ساتھ تھا۔ اسی طرح بندہ نے نماز جنازہ بھی پہلے ہی الگ پڑھ لی تھی کہ امام کی اقتداء نہ کرنی پڑے۔

لیکن ظاہر ہے کہ وہاں بہت سارے جاننے والے لوگ بھی تھے جن کو حقیقت معلوم نہیں تھی وہ تو یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ اس (مفتی صاحب) نے بریلوی امام کے پیچھے نماز و جنازہ ادا کی (جبکہ وہ ہمیں منع کرتا ہے) شاید اب اس کی تحقیق میں ہو جاتی ہو گی جبھی تو اس نے بھی پڑھ لی ہے۔ اور شاید وہ بندہ کے عمل کو دیکھ کر آئندہ ہر بریلوی امام کے پیچھے نماز و جنازہ ادا کرنے لگیں۔

یہ دو عمل مجھ سے ایسے ہوئے جس پر مجھے تنبہ ہوا اور ایک دو دن بعد ایک صاحب نے ٹوکا بھی ہے۔ اب  آنجناب سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ اعمال قابل ملامت ہیں؟ اگر ہیں تو ان کا تدارک کس طرح کیا جائے؟ آیا اس سے توبہ کا اعلان ان سب لوگوں تک پہنچایا جائے جہاں تک ممکن ہو؟ (اس لیے کہ جو گناہ اجتماع میں کیا جائے اس کی توبہ بھی اجتماع میں ضروری ہے) یا کیا کیا جائے؟ آپ رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ بہتر تو یہی تھا کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ وہاں نامحرم عورتیں بھی ہیں تو آپ میت کا چہرہ دیکھنے نہ جاتے، تاکہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملتا۔  تاہم جو ہوا وہ ایسا بھی نہیں کہ قابل ملامت ہو کیونکہ ایک تو آپ پورے طور پر نامحرم عورتوں کے مجمع میں نہیں بلکہ کچھ آگے جا کر رُک گئے اور جس قدر گئے بھی تو آپ نے کم از کم اپنی نظروں کی تو حفاظت کی ہی ہو گی اور اگر نامحرم عورتوں نے آپ کو دیکھا تو یہ ان کی اپنی غلطی ہے۔

فتاویٰ رحیمیہ (7/121):

سوال:میت کو اکثر جگہ رواج ہے کہ عورت کوجنازہ میں  رکھنے سے پہلے اس کے رشتہ دار منہ دیکھتے ہیں  ۔ ان کے ساتھ دوسرے بھی دیکھتے ہیں  ۔ تو ا س کا کیا حکم ہے؟ …الخ

(الجواب) عورت چھپانے کی چیز ہے نہ کہ دکھانے کی چیز  …………خلاصہ یہ کہ رشتہ دار جو محرم بھی ہیں ۔ جیسے باپ، بیٹا، دادا ، نانا، چچا، ماموں ، بھائی، بھتیجا، پوتہ، نواسہ، بھانجا وغیرہ جن کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہے وہ چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت نامحرم عورتیں  وہاں  سے ہٹ جائیں  ۔ نا محرم جیسا کہ خالہ زاد بھائی ، ماموں  زاد بھائی، پھوپی زاد بھائی ، بہنوئی وغیرہ جن کے ساتھ شریعت نے نکاح حرام قرار نہیں  دیا ہے ۔ ان سے پردہ کرنے کا حکم ہے ان کو منہ دیکھنے کی اجازت نہیں  ۔ لہذا مذکورہ بالا دستور ناجائز اور موجب گناہ ہے ۔

2۔ بدعتی امام کے پیچھے اگر مجبوری میں فرض نماز و جنازہ کی نماز پڑھی جائے، تو یہ جائز ہے بلکہ ایسی مجبوری کی صورت میں اکیلے نماز پڑھنے سے ان کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں آپ کو اکیلے فرض نماز اور نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے تھی۔

نوٹ: بریلوی وغیرہ حضرات کے پیچھے نماز و جنازہ پڑھنے متعلق وضاحت:

جو لوگ ایسے امام کو ہٹانے پر قدرت رکھتے ہوں، یا قریب میں اہل حق کی مسجد (جس کا امام متبع شریعت ہو) میں جانا ممکن ہو لیکن پھر بھی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوں تو ان کی نماز مکروہ ہو گی۔ اور جو لوگ ایسے شخص کے امام بننے پر راضی نہیں اور ہٹانے پر بھی قدرت نہیں اور ان کے لیے دوسری  مسجد میں (جو کہ اہل حق کی ہو اور اس کا امام متبع شریعت ہو) جانا بھی مشکل ہو تو ایسے امام کے پیچھے ان کی نماز بلا کراہت درست ہے، ایسی صورت میں گناہ خود امام پر اور اس کے مقرر کرنے والوں پر ہو گا۔

فتاویٰ شامی (2/ 355) میں ہے:

و يكره تنزيها إمامة عبد و أعرابي و فاسق و أعمى. و في الشامية تحته: و يكره الاقتداء بهم … فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل و إلا  فالاقتداء أولى من الانفراد.

مراقي الفلاح (303) میں ہے:

و لذا كره إمامة الفاسق العالم لعدم اهتمامه بالدين …… و إذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده.

امداد الفتاویٰ: (1/327) میں ہے:

سوال: پیش امام جامع مسجد کہ ہزارہا مخلوق درآنجا نماز می کنند مرد جاہل در بواخوار و بخیل و بے تقویٰ و متعلق و کاذب و حارس وغیرہ وغیرہ ہست در جماعت عالم و فاضل و زاہد و عابد و قاری و متقی داخل اند، پس آں نماز ایشاں چگونہ است اکثر قوم ناراض اند صرف از طرف حکومت بطریق وراثت آں پیش امامے مقرر شدہ است، ہمہ مردمان از طرف حکومت مجبور اند، شرعاً چہ باید کرد؟

الجواب:  صبر باید کرد مخالفت باحکومت نازیباست و چوں مقتدیان برعزل امام قادر نیستند، پس ایں ہمہ کراہت برامام خواہد بود، نماز مقتدیان بلا کراہت صحیح خواہد ماند۔

امداد الفتاویٰ (مطول: 2/163)

سوال : بعض موحدمومن نیت پیچھے بدعتی کے نہیں کرتے یہ کیسا ہے؟ اور بعض کا قول ہے کہ پڑھ لیوے، مگردوبارہ نماز اپنی اعادہ کرلیوے؟

الجواب : ہرچند کہ مبتدع کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کما في الدرالمختار: ومبتدع مگرتنہا  نمازپڑھنے سے جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے ۔وفي النهر: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة (درمختار) وفي ردالمحتار: أفاد أن الصلوٰة خلفهما أولى من الإنفراد اهـ۔

فتاویٰ رحیمیہ: (4/177) میں ہے:

(سوال ۲۲۰) کیا فرماتے ہیں  علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں  …ہماری کالونی میں  جو سابق پیش امام تھے وہ اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے تھے ان کے خطبات اور وعظ میں  بہت حد تک شرکت اور بدعت کی رسموں  کو چھڑانا اور سنت نبوی ﷺ  کو جاری کرنے کی جدو جہد تھی ۔ یہاں  پر کچھ بریلوی عقائد والے بھی رہتے ہیں  ان کو پیش امام کے ان وعظوں  سے دشمنی تھی۔ چنانچہ انہوں  نے اپنے بریلوی علماء کا وعظ رکھا ۔انہوں  نے حسب عادت دیو بندی علمائے حقہ کے خلاف اس قدر زہر اگلا کہ یہاں  دو فرقے ہوگئے اور امام صاحب کے خلاف بھی مٹنگیں  کرنے لگے۔بالآخر امام صاحب نے مجبور ہو کر استعفیٰ دے دیا اس کے بعد بدعتی خیال کے لوگوں  کی کوششوں  سے ایک بدعتی امام کا تقرر ہو ا اور انہوں  نے اپنے بیانات میں  دیو بندی علماء حقہ کے خلاف بد گوئی اور دروغ بیانی شروع کر دی جس کی وجہ سے اہل حق نے ان کے پیچھے نماز پڑھنا بند کر دیا ۔ چونکہ ناچیز کو نماز باجماعت میں  خاص لطف آتاہے اس لئے ابھی تک بادل ناخواستہ اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں ۔ دوسری مساجد بہت دور ہیں ۔بندہ اس وجہ سے از حد پریشان ہے گھر پر نماز پڑھنے کی وجہ سے ناکارہ کو سستی کی وجہ سے نماز قضا ہوجانے کا ڈر رہتا ہے میں  کیا کروں  آپ جواب  مرحمت فرمائیں  ۔بینوا توجروا۔(از بمبئی)

(الجواب)یہ شخص فاسق ہے اس کوامام مقرر کرنا جائز نہیں  ۔ اگر پہلے سے امام ہو اور اس کو نکالنے میں  فتنہ کا ڈر ہو اور دوسری مسجد نہ ہو اگر ہو تو بہت دور ہونے کی وجہ سے پنج وقتہ حاضری دینا مشکل ہوتو مجبوراً اس امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ تنہاپڑھنے سے ایسے امام کے پیچھے پڑھنا افضل ہے کہ جماعت کی بہت ہی اہمیت ہے ۔خرابی کی ذمہ داری امام پر اور اس کو مقرر کرنے والوں  پر رہے گی ۔ وفی النهر عن المحیط صلی خلف فاسق او مبتدع نال فضل الجماعة (قوله: نال فضل الجماعة) افاد ان الصلوٰة خلفهما اولیٰ من الا نفراد(درمختار والشامی ج۱ ص ۵۲۵ باب الامامة)فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔

فتاویٰ دار العلوم دیوبند (5/210) میں ہے:

سوال:  ایک شخص عالم فاضل غیر مقلد مرجائے اور غیر مقلد ہی اس کے جنازہ کی نماز پڑھائے اور اس غیر مقلد کے پیچھے عالم حنفی اقتداء کرے باوجود یہ کہ قبل ازیں لوگوں کو ان کے میل جول سے منع کرتا رہا ہو تو اس حنفی پر کچھ مواخذہ ہوگا یا نہیں ۔

الجواب:  یہ فعل اس عالم حنفی کا کہ غیر مقلد امام کے پیچھے غیرمقلد متوفی کے جنازہ کی نماز ادا کی قابل مواخذہ نہیں  ہے ۔ حدیث شریف میں ہے صلوا خلف کل برو فاجرو صلوا علی کل برو فاجر۔الحدیث حاصل  ا س کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر ایک نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو اور ہر ایک نیک و بد کے جنازہ کی نماز پڑھو۔ پس غیر مقلد کا فر تو نہیں ہیں جو اس قدر تشدد اس میں کیا جاتا ہے ۔ بے شک یہ ضروری ہے کہ غیر مقلدوں کے فساد عقائد کی وجہ سے حتیٰ الوسع ان کو امام نہ بنایا جائے لیکن اگر اتفاق ایسا ہوگیا کہ غیرمقلد امام ہے اور اس کے پیچھے نماز کسی نے پڑھ لی خصوصاً جنازہ کی نماز تو اس میں اس نماز پڑھنے والے حنفی پر طعن و تشنیع بیجا ہے اور ناجائز ہے اور اس کی تفسیق اور تضلیل ناروا ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved