• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مروجہ تبلیغ کی شرعی حیثیت

استفتاء

امید ہے کہ آپ لوگ خیریت وعافیت سے ہونگے ۔میرے یہ کچھ سوالات ہے اور امید کرتا ہوں دلائل کی روشنی میں کے جواب دیے جائے گے جزاک اللہ

میرا یہ سوال نفس تبلیغ پر نہیں ،مروجہ طریقہ تبلیغ پر ہے جو تبلیغی جماعت نے اپنایا ہوا ہے بعض علماء اس کو فرض کفایہ کہتے ہیں تو کیسے ؟جب کہ اس طریقے کا ثبوت صحابہ ؓسے لے کر مولانا الیاس ؒصاحب تک نہیں ہے۔

تبلیغ کا شرعی معنی کیا تبلیغ الاسلام الی الکفار نہیں ہے؟جو کہ آج کے دور میں مستحب ہے اگر تبلیغ تذکیروترغیب اور تعلیم کے معنی میں ہوتو فرض کفایہ ہے اور اس کے لیے کوئی بھی طریق اپنایا جاسکتا ہے۔

1۔تو اس مروجہ طریقے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

الجواب :تبلیغ کا مروجہ طریقہ فرض نہیں ہے ،اس کو چلانے والے موجودہ حالات میں اس طریقے کو مفید کہتے ہیں اور یہ بات تجربے سے ظاہر ہے ۔شرعی مقاصد کی تحصیل کے لیے اختیار کردہ ذرائع جب کہ شرعا ان کا جواز ہو بدعت نہیں ہوتے جیسے دینی علوم کی حفاظت وترویج کیلئے مدارس کے حالیہ سلسلے اور اصلاح نفس کے لیے اختیار کردہ صوفیا ء کے اشغال وغیرہ ۔

2۔آج کی تاریخ میں اس طریقہ کار کو اپنانے میں جو تحریفات فتنہ وفساد التزام مالایلزم اصرار اور اس طریقے کو اپنے مقام سے بڑھا کر فرض وواجب سمجھنا اعتقادی طور سے یا عملی طور سے فرض وواجب جیسا عمل کرنا اب کیا حکم ہے؟

الجواب :یہ باتیں کسی فرد میں تو ہو سکتی ہیں لیکن مجموعی طور پر تبلیغی جماعت کے ذمہ دار حضرات میں یہ باتیں نہیں ہیں۔

3۔اپنے اس طریقہ وکام کی اہمیت اور اس کے لازمی ہونے کو ظاہر کرنے کے لیے ہی تو آیات جہاد واحادیث جہاد سے استدلال کیا جاتا ہے یہ اس کام کے عوام کی ذہنیت بن گئی ہے اور بنانے والے اس میں موجود ذمہ دار حضرات ہیں جیسے ایک عالم جو اپنے حلقے کے امیر بھی تھے ان کا ایک بیان سنا آڈیو کے ذریعے جس میں کہہ رہے ہیں۔

’’ہم کو چل پھر کر کوشش کرنا ہے کہ پہلے نبی اس کام کو کرتے تھے اب نبی نہیں آئے گا میرے اور آپ کے ذمے فرض ہے کہ نکل کر دین سیکھیں اور دوسروں میں دین لانے کی کوشش کریں یہ ہمارا کام ہے علماء بھی کریں خواص بھی کرے منسٹر بھی کرے وزیر بھی کرے غریب بھی کرے جس کو مرنا ہے اس کو یہ کام کرنا ہے ۔حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ ارے بھائی نام سنا ہے کبھی ،ان کا لقب ہے امیر المومینین فی الحدیث ساری دنیا میں حدیث کے استاذ سب سے بڑے اور امام بخاری ؒ کے بھی استاذ ہیں یہ ،ان کا معمول تھا کہ چھ مہینے جماعتوں میں جاتے چھ مہینے حدیث پڑھاتے تھے جماعتوں میں جا کے واپس آتے واپس تواپنے بدن پر جو دھول اور گرد وغبار لگتا تھا پہلے زمانے میں ہوائی جہاز اور کاریں نہیں تھی اس کو جمع کرتے تھے اور چھوٹی چھوٹی اینٹیں بنا کر رکھا کرتے مرتے وقت وصیت کی اللہ کے راستے کی دھول ہے ۔۔۔۔۔اس طرح کے بیانات ہیں جو اپنے آپ کو عالم کہنے والے لوگ بیان کرتے ہیں تو اس سے عوام کی ذہنیت نہیں بن جائے گی کہ یہ طریقہ یہ کام فرض وواجب ولازمی ہے۔بیان کے شروع سے ظاہر ہے ’’ہم سب کو چل پھر کر‘‘سے اپنایہ طریقہ کار مراد ہے ،بے شک ہر مسلمان پر اتنا دین سیکھنا فرض ہے جس سے اپنی زندگی گزار سکے لیکن کس سے سیکھے ؟؟؟اور یہ بات کہہ کر لوگوں کو دھوکا دینا کہ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ جماعتوں میں جاتے تھے جبکہ وہ جہادو قتال کرنے جاتے تھے اسی طرح ایک اور عالم صاحب کا بیان کہ رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ بات بار بار کہتے رہے’’ اسامہ کی جماعت روانہ کردو ‘‘رسول اللہ  ﷺ نے اپنی زندگی میں 150جماعتوں کو بھیجا جن میں 20میں خود شامل رہے جب ذمہ دار کہلانے والے لوگ اس قسم کے بیانات کریں گے اور بعض علماء جو اس میں لگے ہوئے ہیں کہ نزدیک لازمی وضروری کام ہے تو عوام کی یہ ذہنیت کیسے نہیں بن جائے گی کہ یہ فرض وواجب اور یہی جہاد ہے۔اور بعض علماء جو یہ کہتے ہیں جس کے پاس دین سیکھنے کے کوئی اور ذرائع نہیں وہ اس میں لگ کر سیکھے تین دن لگائے یا کتنا لگائے تو اس کے لیے مودبانہ گزارش ہے کہ اب تو ہر مسجد میں ایک عالم ہوتا ہی ہے اور اگر نہ ہو تو اس کو یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ آپ کسی عالم یا مدرسہ سے بات کرکے اس کے پاس ٹھہر کر دین سیکھیں اور اپنا خرچ کرے جس طرح اگر جماعت میں جاتا تو خرچہ کرتا ۔مروجہ طریقہ کار جو مباح کے درجے کا ہے تو سوال یہ ہے کہ امر مباح یا مستحب کو اپنے درجے سے بڑھادینا یا گٹھا دینا کیا حکم رکھتا ہے؟

الجواب :غیر ضروری کو ضروری یا ضروری کو غیر ضروری سمجھنا غلط ہے ۔

4۔کیا حکم صرف ان افراد پر لگے گا جو اس کو فرض وواجب چاہے اعتقادی ہو یا عملی سمجھتے ہیں ؟اگر افراد پر لگے گا تو اس کی دلیل کیا ہے کہ صرف افراد پہ لگے ،کل پر نہیں ؟

الجواب :اگر کوئی خرابی کسی جماعت کے ذمہ دار حضرات میں عموما پائی جائے تو حکم سب پر لگے گا ورنہ صرف ان افراد پر لگے گا جن میں وہ خرابی ہے۔

5۔اگر یہ اصول حکم شرعی ہے کہ امر مباح یا مستحب کی وجہ سے عوام میں فساد عقیدہ ہو اس کا ترک کیا جاتا ہے اصلاح نہیں ؟تو آج کی تبلیغ جماعت اس میں مبتلا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

الجواب : یہ بھی تب ممنوع ہے جب عموما کسی جماعت کے افراد کا یہ ذہن بنے ۔

6۔اگر امر مباح یا مستحب کو اپنے درجے سے بڑھادینا یا گٹھا دینا بدعت وگمراہی ہے تو مروجہ تبلیغی جماعت اس میں مبتلا ہے بڑے سے لے کرعوام تک تو کس بات نے علماء کرام کو روک رکھا ہے اس کوبدعت قرار دینے سے ؟اگر ظاہری فائدہ کا ذکر کریں گے تو اس اصول کا اطلاق کب اور کہاں اپنایا جائے گا۔دفع مضرت جلب منفعت پر مقدم ہے ۔اب مروجہ تبلیغی جماعت سے عوام میں فساد عقیدہ تحریف ،فتنہ فساد پیدا ہو گیا ہے تو اب اس کا حکم واضح کریں۔

الجواب:علماء اس بات کو سمجھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت میں جو خرابیاں ذکر کی جاتی ہیں وہ ابھی تک افراد کی حد تک ہیں اس لیے وہ اس پورے کام کو غلط اس قرار نہیں دیتے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved