• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد اور مدرسہ کے لیے مشترکہ طور پر زمین وقف کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت نے ایک مسجد اور مدرسہ کی نیت سے زمین وقف کی اس طور پر کہ کل جگہ 16 مرلہ تھی اس نے 8 ،8 مرلہ کی نیت کی مگر جگہ متعین نہ کی رجسٹری دونوں کی علیحدہ کروائی مگر تعیین اس میں بھی نہ کی اب صورتحال یہ کہ مسجد کہ نام پر کل جگہ پر ایک ھال ہے اور اس میں نمازیں ہو رہی ہیں اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسا کر سکتے ہیں کہ درمیان میں مسجد رہے اور دونوں طرف مدرسہ ہو ایک طرف عورتوں کے لیے اور ایک طرف بچوں کے لیے ۔نمازوں کی ترتیب بھی یہی ہے کہ درمیان میں محراب ہے اور نمازیں درمیان  ہی ہوتی ہیں سایڈوں پر جگہ پر قالین بھی نہیں بچھا ہو کبھی عید وغیرہ پر پوری مسجد بھرتی ہےورنہ نہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مدرسے کا وقف درست ہے۔ البتہ اس کی تعیین کا واقف کو اختیار ہو گا۔ لیکن مسجد کا وقف درست نہیں ہوا۔ اس لیے اب دوبارہ تعیین کے ساتھ وقف کیا جائے۔

توجیہ: مذکورہ وقف مشاع کا ہے اور مشاع کا وقف مسجد کا ہو تو کسی کے نزدیک بھی درست نہیں ہوتا۔ جبکہ دیگر اوقاف مشاع بھی درست ہو جاتے ہیں۔

في الفتاوى الهندية (2/ 365):

 وقف المشاع المحتمل للقسمة لا يجوز عند محمد رحمه الله تعالى و به أخذ مشائخ بخارى و عليه الفتوى كذا في السراجية. و المتأخرون أفتوا بقول أبي يوسف رحمه الله أنه يجوز و هو المختار كذا في خزانة المفتين. و اتفقا على عدم جعل المشاع مسجداً أو مقبرة مطلقاً سواء كان مما لا يحتمل القسمة أو يحتملها هكذا في فتح القدير.

و في رد المحتار (6/ 535):

و الخلاف فيما يقبل القسمة أما ما لا يقبلها كالحمام و البئر و الرحى فيجوز اتفاقاً إلا في المسجد و المقبرة لأن بقاء الشركة يمنع الخلوص لله تعالى.

و في الفتاوى الهندية (2/ 366):

و لو وقف من داره أو أرضه ألف ذراع جاز عند أبي يوسف رحمه الله ثم يذرع الأرض و الدور فإن كانت ألف ذراع أو أقل كان كلها وقفاً و إن كانت ألفي ذراع كان الوقف منها النصف و إن كانت ألف و خمسمائة كان الوقف منها ثلثين و إن كان في بعضها نخيل و بعضها لا نخيل فيه يكون للوقف حصة من النخيل كذا في المحيط………. فقط و الله تعالى أعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved