• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کا نام آپﷺکے نام پر ہو تو ” صلی اللہ علیہ وسلم” لکھنا

  • فتوی نمبر: 29-380
  • تاریخ: 26 مئی 2024

استفتاء

جامعہ”طہ”کے ساتھ "صلی اللہ علیہ وسلم”اور مدرسہ سیدنا علی کے ساتھ"رضی اللہ عنہ”لکھنا چاہیے  یانہیں؟اسی طرح اگر مسجد کا نام آپﷺکے نام پر رکھا گیا ہو یا  کسی صحابیؓ کے نام پر رکھا گیا ہوتو مسجد کا نام لکھتے یا پڑھتے وقت"صلی اللہ علیہ وسلم”یا"رضی اللہ عنہ”لکھنا پڑھنا  چاہیے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مسجد یا مدرسہ  کا نام آپﷺکے نام پر رکھا گیا ہو یا  کسی صحابیؓ کے نام پر رکھا گیا ہوتو مسجد کا نام لکھتے یا پڑھتے وقت"صلی اللہ علیہ وسلم”یا"رضی اللہ عنہ” لکھ، پڑھ سکتے ہیں تاہم لکھنا، پڑھنا ضروری نہیں ۔

امداد الفتاوی(8/512)میں ہے:

سوال : ایک شخص کا نام "محمد حسن” ہے وہ اپنے نام کے لفظ محمد پر”ﷺ” اور "حسن” پر "رضی اللہ عنہ” لکھتا ہے (اس طرح محمدؐحسنؓ) کیا اس طرح کرنا شرک نہیں ؟کیونکہ یہاں پر ’’محمد‘‘ سے وہ پاک ہستی مراد نہیں جس کے نام کے ساتھ "ﷺ” لکھا جاتا ہے، اور نہ وہ "حسن” مراد ہے جس کے بعد "رضی اللہ عنہ” لکھنا ضروری ہے؟

الجواب: کاتب کا یہ مقصود نہیں ہوتا کہ اس اسم کا مسمیٰ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم یا حسنؓ ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ دونوں جزء کے مسمیٰ متغائر ہیں تو ایک ہی شخص دو ذات کا مصداق کیسے ہو سکتا ہے،بلکہ چونکہ بناء خود اس تسمیہ کی تبرک باسماء الذوات المبارکہ ہے تو ان الفاظ سے ذہن اُن اسماء ذوات مبارکہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، جو اسماء کے منقول عنہا ہیں ، گویا یہ اسماء منقولہ ان منقول عنہا کے مذکر ہیں ، ان منقول عنہا کے قصد سے جو بواسطہ ان الفاظ دالہ کے گویا حکماً مذکور ومدلول ہیں ، ایسے رموز لکھ دیتے ہیں لہٰذا یہ نہ شرک ہے نہ کفر  البتہ اس توجیہ میں بُعد ضرور ہے لہٰذا اس کا حذف اولیٰ ہے ۔

[کیونکہ یہ بات باعث تشویش ہے لیکن چونکہ مسجد یا مدرسے کے نام میں یہ تشویش نہیں لہٰذا مسجد یا مدرسے میں حذف اولیٰ نہ ہوگا: از محمد رفیق]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved