• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کا پیسہ مدرسے پر اور مدرسے کا پیسہ مسجد پر خرچ کرنا

  • فتوی نمبر: 18-82
  • تاریخ: 21 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم المقام مفتی صاحب ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے برائے مہربانی اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ میرے دفتر کے سامنے ایک مسجد ہے جس کے ساتھ ایک مدرسہ بھی متصل ہے نمازیوں کی گنجائش کے مطابق مسجد کی توسیع ضروری ہوگئی جو کی الحمدللہ چند دوستوں کی معاونت سے مسجد کی توسیع کرا لی گئی ہے دوران توسیع معلوم ہوا کہ مہتمم مدرسہ مسجد کے اخراجات مدرسہ کے پیسوں ستے کرتے ہیں جو کہ زکوٰۃ اور صدقات کی مد میں آتے ہیں میرے استفسار پر مہتمم صاحب نے فرمایا کہ ہم نے ایک فتویٰ لیا ہے کہ یہ مسجد مدرسہ کے تابع ہے اس لیے مدرسہ کے پیسوں سے اخراجات کیے جاسکتے ہیں مگر تحریری کوئی فتویٰ ان کے پاس موجود نہیں ہے اب نمازیوں کی کوشش ہے کہ نئی مسجد کی ایک کمیٹی بنا کر مسجد کے اخراجات کیلئے علیحدہ سے چندہ اکٹھا کیا جائے اور مدرسہ اور مسجد کے اخراجات علیحدہ کیے جائیں  اور مدرسہ اور مسجد کے اخراجات علیحدہ کیے جاسکیں لیکن مذکورہ مہتمم صاحب اب بھی اسی اپنی پرانی بات پر قائم ہیں اور کمیٹی کے قیام میں بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔

برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ اس طریقہ سے مدرسہ کے پیسے مسجد پر خرچ ہوسکتے ہیں یا نہیں؟

وضاحت مطلوب : سائل اور مہتمم یہ بتائیں کہ مسجد اور مدرسہ کی عمارت ایک ہے یا الگ الگ؟

جواب وضاحت از سائل : مسجد اور مدرسہ کی عمارت الگ الگ ہے۔

جواب وضاحت از مہتمم :  مفتی صاحب اس مسئلہ میں عرض ہے کہ یہ مسجد اور مدرسہ بہت پرانا ہے مسجد 1960 میں اور مدرسہ 1995 میں شروع ہوا مسجد میرے نانا جی نے بنائی اور مدرسہ میں نے اور میرے ماموں نے شروع کیا میں کہیں اور پڑھاتا تھا 2004 میں مجھے ماموں اور مسجد کے جو دو تین نمازی تھے انہوں نے بلایا اور کہا کہ اس مسجداور مدرسہ کو آپ سنبھالیں مسجد کے نمازیوں کی کل تعداد اس وقت دو تین ہی تھی میں نے پہلے شعبہ حفظ کو بہتر کیا پھر 2006 میں شعبہ کتب شروع کر دیا اور ماموں اور نمازیوں سے کہا کہ آپ حضرات مدرسہ اور مسجد کلیۃ میرے حوالے کردیں ان حضرات نے قبول کرلیا مدرسہ اور مسجد کا خرچہ ماموں اور میں اپنی ذاتی جیب سے اور کچھ مخیر قریبی حضرات  سے آج تک کرتے آئے ہیں قریبی احباب کے پیسوں کی تملیک بھی کرا لی جاتی ہے عام چندہ کا نظام نہیں ہے اور ہم نے کمیٹی بھی 2006 میں دس افراد کی بنالی جس میں ماموں اور علمائے کرام اور تین پرانے نمازی ہیں طلبہ اور نمازیوں کی تعداد کی وجہ سے تین چار سال پہلے مسجد چوٹی پڑ گئی تو میں نے مامو ں سے عرض کرنا شروع کیا کہ آپ اپنا گھر ہمیں مسجد مدرسہ کے لیے دیدیں  ایک ماموں نے اپنا گھر قیمتا اور دوسرے مامو نے گھر کا صحن ہدیۃ دیدیا جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو ایک نمازی نے  تعمیر کیلئے اپنی خدمات پیش کی تعمیر ہم نے خوشی سے اجازت دے دی پھر انہوں نے تعمیر مکمل ہونے سے پہلے نئی کمیٹی کا مطالبہ شروع کردیا اور یہ کہا کہ آپ لوگ مدرسہ کے پیسوں سے مسجد کے اخراجات کرتے ہیں جو کہ جائز نہیں ہے میں مسجد کی علیحدہ کمیٹی بنانا چاہتا ہو ہم نے عرض کیا کہ آپ پرانی کمیٹی کے احباب میں سے یا امام صاحب کو مسجد کا خرچہ جمع کرکے دے دیا کرے اور ان سے حساب لے لیا کرے اس پر وہ  نہیں آئے اور اختکاف کی ایک بڑی صورت بنا دی نئی کمیٹی میں وہ اپنے دوستوں کو اور رشتہ داروں کو ڈال رہے ہیں اور خزانچی خود بننا چاہتے ہیں

مفتی صاحب مسجد اور مدرسہ کا سارا نظام ہمارا اپنا تقریبا ذاتی ہوتا ہے غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ ہم نے مسجد اور مدرسہ کو گورنمنٹ سے رجسٹر نہیں کروایا۔مفتی صاحب  مسجد اور مدرسہ کا داخلی دروازہ ایک ہی ہے مسجد میں داخل ہوکر پہلے دائیں ہاتھ پر ہم نے ایک کمرہ تعمیر کیا اور اس میں شعبہ حفظ شروع کیا پھر کچھ عرصے بعد ہم نے مسجد میں جو کہ پہلے بہت چھوٹی تھی اور اس کا ایک ہی حال تھا اس حال میں شعبہ کتب شروع کیا  طلباء کرام اسی مسجد کے حال میں پڑھتے اور سوتے  تھے داخلی دروازے کے بائیں طرف مسجد کے چار باتھ روم تھے اور ساتھ ہی وضو خانہ بھی پھر ہمیں مسجد کے ساتھ ہی شعبہ کتب کے شروع کرنے کے چار پانچ سال بعد 8 مرلہ کی جگہ مل گئی  اس کو ہم نے ایک حال کی شکل دے کر تین منزلہ کرلیا 2012 میں پھر کتب اور حفظ اس  حال میں منتقل ہوگیا لیکن اب بھی کتب کی پڑھائی مسجد کے صحن میں ہوتی ہے

1995 میں حفظ کا کمرہ بنا 2006 میں مسجد میں کتب شروع ہوئیں  2011 میں مدرسہ کی  جگہ لے کر 2012 میں حال بنا یا،مفتی صاحب شعبہ کتب کی ابتدا ہم نے مسجد ہی کے حال سے شروع کی مسجد کے حال میں طلباء پڑھتے بھی تھے اور سوتے بھی تھے اور سامان بھی رکھا ہوا تھا بعد میں ساتھ جگہ لے کر مدرسہ کو وہاں منتقل کر دیا گیا ویڈیو میں آپ مدرسے کو مسجد کے صحن کے ساتھ ملا ہوا دیکھ رہے ہیں مدرسہ بعد میں بنا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مسجد اور  مدرسہ کی انتظامیہ ایک ہو  اور دونوں کا خرچہ اپنی رقم سے یا مخصوص احباب کے چندے سے کرتی ہو تو مدرسے کا پیسہ مسجد میں اور مسجد کا پیسہ مدرسے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

خیر الفتاویٰ (6/487) میں ہے:

سوال: مدرسہ اگر  مسجد کے تابع ہو تو مسجد کی اشیاء اور فنڈ مدرسہ میں استعمال ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر مسجد مدرسہ کے تابع ہو تو مدرسہ کی اشیاء اور فنڈ مسجد میں استعمال ہوسکتا ہے یا نہیں ؟

الجواب : اگر مسجد ومدرسہ کا حساب کتاب الگ الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تابع ہیں اور چندہ بھی مشترکہ ہوتا ہے تو ایک کا فنڈ دوسرے پر خرچ کرنے کی گنجائش ہے۔

خیر الفتاویٰ (6/487) میں ہے:

سوال : مسجد کمیٹی کی رائے ہے کہ مسجد کی آمدنی سے کچھ حصہ مسجد انتظامیہ کے زیر انتظام جو مدرسہ ہے اس پر خرچ کردیا جائے کیا اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب : لوگوں کو مطلع کر دیا جائے کہ یہ مسجد ومدرسہ ایک ہی ہیں یعنی مدرسہ مسجد کا جزو ہے ان کی آمدنی وخرچ ایک ہی ہے اس کے بعد جو چندہ آئے وہ حسب ضرورت دونوں پر استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند(13/466) میں ہے:

سوال : مسجد کے صحن میں بجانب شمال ایک حوض ہے اور حوض کے پہلو میں بہ جانب شمال بیت الخلاء اور غسل خانہ وغیرہ ہیں بیت الخلاء وغسل خانہ وغیرہ کی چھت پر ایک متولی نے اپنے نام سے دینی مدرسہ قائم کیا دوسرے متولیوں نے سکوت کیا منع نہیں کیا تقریبا پچاس سال سے یہ مدرسہ جاری ہے اور یوما فیوما ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ درجہ عربیہ کے مدرسین مسجد کے بالائی درجہ میں تعلیم دیتے تھے بعد اس کے نصف حوض مسقف کرکے مدرسہ میں داخل کردیا گیا مسجد کی پرانی چٹائی مدرسہ میں خرچ کی جاتے ہے نیز مرمت مدرسہ یعنی شکستہ چھت ودیواریں وغیرہ سفیدی ورنگ بیت الخلاء اور غسل خانہ کے نل اور پانی پینے کے مٹکے یہ سب اور روشنی کا خرچ یہ سب اخراجات مسجد کے روپیہ سے بہ موجودگی اصلی متولیوں کے جاری تھے اور ہیں اب وہ مدرسہ بہ سبب عدم کفایت خرچ قریب ٹوٹنے کے ہے مسجد غنی ہے بہت روپیہ اس کا جمع ہے آمدنی خرچ سے بہت زیادہ ہے آیا اس مسجد کا روپیہ اس مدرسے پر بلا قرض خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر بلا قرض خرچ نہیں کر سکتے تو بطور قرض حسنہ خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں ؟

الجواب : اس صورت میں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زائد آمدنی مسجد کی مدرسہ وغیرہ مصارف خیر میں بطریق قرض صرف کی جاوے اور بعض روایات سے واضح ہوتا ہے کہ بلا قرض کے بھی صرف کرنا درست ہے۔

قال الشيخ الامام (محمد بن الفضل) : ماكان من غلة وقف المسجد الجامع يجوز للحاكم أن يصرفه الي ذلك على وجه القرض اذا لم تكن للمسجد حاجة اليه الخ( فتح القدير)

اور حموی شرح اشباہ میں ہے :

قال بعضهم: الذي فيها لا يصرف القاضي الفاضل من وقف المسجد وقيل ويعارضه ما في فتاوى الامام قاضيخان في أن الناظر له صرف فائض الوقف الى جهات بر بحب ما يراه

اس عبارت حموی سے واضح ہے کہ زائد آمدنی مسجد کو جہات بر میں بلا قرض کے بھی صرف کرنا درست ہے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (13/467) میں ہے :

سوال: جامع مسجد کی دیوار جنوبی توڑ کر تھوڑی سی اراضی اور ملا دی گئی اور اس کا نام مدرسہ رکھا گیا ، مسجد کا کل سامان اسی مدرسے میں رکھا جاتا ہے اور عورتیں اسی میں نماز جمعہ ادا کرتی ہیں، مسجد کے روپے سے اس مدرسے کی مرمت جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: جو مدرسہ کے متعلق مسجد ہے اور مصالح مسجد کیلئے ہے اس کے تمام اخراجات بھی وقف مسجد سے متعلق ہیں لہذا مسجد کے سرمایہ سے اس کی مرمت کی جاسکتی ہے اور یہی حکم کنویں اور استنجاء خانہ کا بھی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved