• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے بیسمنٹ میں بنات کا مدرسہ بنانا

  • فتوی نمبر: 28-340
  • تاریخ: 23 اگست 2022

استفتاء

گذارش ہے کہ ہمارے محلہ*** میں قبا مسجد کے نام سے مسجد تعمیر ہوئی۔ 2019ء میں مسجد کے بیسمنٹ میں جماعت کی نماز شروع ہوگئی۔2020 میں پہلی منزل پر نماز باجماعت شرو ع ہوگئی ہے اب دوسری منزل بھی تقریباً تیار ہے امید ہے رمضان المبارک تک نمازی زیادہ ہونے پر اوپر بھی نماز ادا کی جائے  گی جبکہ بیسمنٹ میں جمعہ کے دن نمازی نماز ادا کرتے ہیں۔

ہمارے محلے میں مستورات کے لیے دینی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے آیا مسجد کی شوریٰ کے مشورے سے بیسمنٹ میں مدرسہ کی جگہ بناسکتے ہیں جس  میں روزانہ خواتین آئیں اور کچھ وقت دینی تعلیم لے کر واپس چلی جائیں۔جبکہ بیسمنٹ کا راستہ مسجد سے الگ ہے مسجد سے بیسمنٹ میں جانا ہو تو جوتا پہن کر جانا ہوتا ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مسجد کو تو مدرسہ سے تبدیل کرنا درست نہیںکیونکہ جو جگہ مسجد بن جائے وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہتی ہے،البتہ مسجد کی حیثیت کو برقرار رکھتے مدرسہ کو مسجد کےتابع بنا کر وہاں خواتین کی تعلیم کا سلسلہ جاری کرنا جائز ہے،البتہ چونکہ عورتوں کا ماہواری کے ایام میں مسجد آنا جائز نہیں،اس لئے اس موقع پر انہیں مسجد میں آنا منع ہوگا۔

درمختار مع ردالمحتار(6/546)میں ہے:

فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك

(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه.

حاشیہ ابن عابدین(4/433)میں ہے:

شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به

کفایۃ المفتی(7/33)میں ہے:

سوال: ایک مسجد ہے جس کے اطراف میں علوم شریعہ کی درس و تدریس کے لئے مدرسہ بنایا گیا ہے مسجد اور مدرسہ مسلمانوں کے چندے سے بنائے گئے ہیں ۔ تعمیر کے وقت یہ خیال تھا کہ مسجد کو دومنزلہ بنایا جائے کیونکہ مسجدکی جگہ تنگ ہے تاکہ زیادہ آدمی ہوں تو دونوں میں مل کر ایک جماعت سے نماز ادا کر سکیں ۔ مسجد کے دونوں طبقوں میں درس علوم شرعیہ خارج اوقات نماز میں دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:  مسجد کی تعمیر میں بانی اور متولی حسب صوابدید خود مسجد کی حیثیت سے تغیر و تبدل کر سکتے ہیں۔ مسجد اراد اهله ان یجعلوا الرحبة مسجدا والمسجد رحبة وارادوا ان یحدثوا له بابا وارادوا ان یحولوا الباب عن موضعه فلهم ذلک فان اختلفوا نظر ايهم اکثرو افضل ذلک کذا فی المضمرات  (عالمگیری)

فتاویٰ مفتی محمود(1/380) میں ہے:

کیا فرماتے ہیں علماءئے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نے ارض کو مسجد کے لیے وقف کیا تو پھر  واقف یا غیر واقف اس جگہ میں مدرسہ بنا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کو کسی اور مصرف میں لانا درست نہیں۔

فتاویٰ محمودیہ (14/340) میں ہے:

ایک شخص نے ایک مکان مسجد کے نام وقف بذریعہ عدالت کردیا تھا جس کو تقریباً 20 سال یا 22 سال گذر چکے ہیں، اس وقت انتظامیہ کمیٹی اختر مسجد کے چند ممبر  ان نے بلا کسی مشورہ سے اس مکان سے کرایہ دار کو بذریعہ نکال دیا اور وہاں مدرسہ تعمیر کرنے لگے اور جو کچھ مسجد کی آمدنی تھی وہ ختم ہوگئی تحریر کریں کہ جائز ہے یا ناجائز؟ شرعاً طریقہ کیا ہے؟

جواب: مسجد کے وقف شدہ مکان پر مدرسہ تعمیر کراکے مسجد کی آمدنی  ختم کرنا جائز نہیں۔

احسن الفتاوی (6/456)میں ہے:

پرانی مسجد کو مکتب بنانا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:

مسجد جب ایک بار بن گئی تووہ مسجد ہی رہے گی،خواہ لوگ اس میں نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں،لہذا اس کو مکتب بنانا جائز نہیں……….

فتاوی عالمگیری (2/490)میں ہے:

لا يجوز ‌تغيير ‌الوقف عن هيئته فلا يجعل الدار بستانا ولا الخان حماما ولا الرباط دكانا، إلا إذا جعل الواقف إلى الناظر ما يرى فيه مصلحة الوقف، كذا في السراج الوهاج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved