• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے فنڈ سے مدرسے اور امام صاحب کے گھر کی تعمیر کرنا

  • فتوی نمبر: 27-355
  • تاریخ: 16 جون 2022

استفتاء

ہماری مسجد کی کل جگہ تین کنال تیرہ مرلے ہے ایک طرف مسجد اور دوسری طرف مدرسہ تعمیر کر رہے ہیں مسجد کی کل جگہ میں قاری صاحب کا گھر بھی ہے جو لوگ تعاون کرتے ہیں وہ مسجد کے نام پر فنڈ دیتے ہیں کیا ہم مسجد کا فنڈ مدرسے کی تعمیر اور قاری صاحب کے گھر کی تعمیر پر لگا سکتے ہیں یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:(1) مذکورہ جگہ لیتے وقت کیا طے ہوا تھا؟(2)کیا مسجد اور مدرسہ کی انتظامیہ علیحدہ علیحدہ ہے؟(3)قاری صاحب مسجد میں امام بھی ہونگے یا صرف مدرسہ میں بچوں کو پڑھائیں گے؟

جواب وضاحت:(1) مسجد اور مدرسہ دونوں ہونگے(2) مسجد اور مدرسہ کی انتظامیہ ایک ہی ہے(3)قاری صاحب امام بھی ہیں اور مدرسہ میں بھی پڑھاتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت حال کے پیش نظر چونکہ مسجد و مدرسہ الگ الگ نہیں ہیں اس لیے مسجد کے فنڈ سے مدرسے کی تعمیر اور قاری صاحب کے گھر کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔

البحر الرائق(5/234) میں ہے:

السادسة عشرة في البزازية وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن ‌باستصواب ‌أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف

خير الفتاویٰ(6/487) میں ہے:

’’اگر مسجد و مدرسہ کا حساب کتاب الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تابع ہیں اور  چندہ بھی مشترکہ ہوتا ہے تو ایک کا فنڈ دوسرے پر خرچ کرنے کی گنجائش ہے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved