- فتوی نمبر: 17-139
- تاریخ: 18 مئی 2024
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
بندہ ایک مسجدمیں عرصہ27سال سےامامت کی خدمت سرانجام دے رہاہےبندہ کی تنخواہ 8ہزار ہے اس کےعلاوہ کوئی فیملی رہائش وغیرہ کانظم بھی مسجد کی جانب سے نہیں ہے،بندہ کو اپنی کسی ضرورت کے لیے مبلغ50ہزار روپے قرض مطلوب ہے جو مسجد کی انتظامیہ سےبطورقرض لینا چاہتاہے اس قرض کی واپسی کی صورت یہ ہو گی کہ تھوڑاتھوڑاکر کےکٹواتارہوں گاتنخواہ میں سے۔انتظامیہ کاکہنا یہ ہے کہ اگر شرعا اس کی اجازت ہوتو ہم دے سکتے ہیں ۔کیا بندہ کے لیےقرض لینااورانتظامیہ کا دینادرست ہے؟
نوٹ:بندہ مسجد کی انتظامیہ کو ضامن دینے کےلیے بھی تیار ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب مسجدکی انتظامیہ کوقرض کی واپسی پراطمینان ہوخاص کرجب کوئی ضمانت بھی دیدےتوامام مسجد کومسجدکےفنڈسےقرض دیاجاسکتاہے۔
حاشية ابن عابدين (5/ 417)
ذكره في البحر عن جامع الفصولين لكن فيه أيضا عن العدة يسع للمتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز ا هـ
ومقتضاه أنه لا يختص بالقاضي مع أنه صرح في البحر عن الخزانة أن المتولي يضمن إلا أن يقال إنه حيث لم يكن الإقراض أحرز
البحر الرائق (5/ 259)
قال في القنية طالب القيم أهل المحلة أن يقرض من مال المسجد للإمام فأبى فأمره القاضي به فأقرضه ثم مات الإمام مفلسا لا يضمن القيم اه مع أن القيم ليس له إقراض مال المسجد قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز اه
کفایت المفتی(7/209)میں ہے:
کیا متولی مسجد خادم و امام کو مسجد کی آمدنی سے قرضہ دے سکتا ہے:
سوال ) خادمان مسجد مثلاً مؤذن و امام بوقت ضرورت متولیان مسجد ، مسجد کے وقف مال سے قرض حسنہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
(جواب ۲۰۱) متولی مسجد کو اختیارہے کہ وہ مسجد کے خادموں کو ان کی ضرورت رفع کرنے کے لئے مسجد کے فنڈ سے روپیہ قرض دے دے لیکن یہ شرط ہے کہ قرض کی وصولیابی کی طرف سے اطمینان ہو ۔ ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔(۵) محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ،
لیسع للمتولی اقراض مافضل من غلة الوقف لو احرز ا ھ … للمتولی اقراض مال المسجد بامرالقاضی (ردالمحتار کتاب القضا ء مطلب للقاضی اقراض مال الیتیم وغیرہ ج : ۵ ، ۴۱۷ ۔ ط سعید)
© Copyright 2024, All Rights Reserved