• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے لئے مشاع زمین وقف کرنا

استفتاء

ایک عورت کا انتقال ہوا۔ ورثاء میں صرف تین  بیٹیاں ہیں۔ ترکہ میں ایک مکان چھوڑا۔ مکان کا رقبہ 36 مربع گز ہے۔ والدہ  کے وفات کے بعد تینوں بہنیں اس مکان  میں رہنے لگیں۔ بعد میں دو بہنیں  لاہور  منتقل  ہوگئیں صرف ایک بہن گھر میں رہنے لگی جو اب تک وہاں   رہائش پزیر ہے۔ آپس میں تینوں بہنوں کا طے پایا کہ مذکورہ بہن باقی دوبہنوں  کو ان کے  حصہ کے بدلے (اتنے عرصے میں اتنی )رقم ادا کریگی ۔ پھر مذکورہ  بہن  مقررہ عرصے میں رقم کا انتظام نہ کرسکی۔ رقم نہ ملنے کے بعد ان دو بہنوں نے اپنا حصہ(24گز) ساتھ میں چھوٹی سی مسجد کے نام  کردی ۔ تاکہ  ان کا حصہ مسجد میں شامل کرکے  مسجد کی توسیع کی جائے۔ ایک  تحریر نامہ لکھ کر صرف اسی پر  مسجد والوں  کو قبضہ کرایا۔اپنا حصہ گھر میں سے الگ کرکے مسجد  والوں کو نہیں دی۔ بلکہ بدستور مذکورہ بہن کے تصرف اور قبضے میں ہے۔ بعد میں ان کو خیال ہوا کہ اگر  ہم اپنا حصہ مسجد کو دیں تو  مذکورہ بہن کے گھر کے واسطے کیا بچے گا۔ اس خیال سے ان  کا آپس میں   طے پایا کہ ہر بہن  اپنے حصے میں  سے چارچار گز مسجد سے واپس لے کر بہن کو  دینگی اور باقی مسجد کے لیے چھوڑ دینگی۔ لہذا ان دوبہنوں نے 09۔3۔15 کو مطالبہ واپسی کا نوٹس دے دیا۔ دوسری طرف 09۔3۔24 کو مسجد والوں نے ان کے حصہ (24گز مربع) کی رجسٹری مسجد کے نام کرادی۔ نوٹس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کی اطلاع نہیں ہوئی۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ان دوبہنوں کا واپسی کا مطالبہ  صحیح  ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جوجگہ تقسیم کی جاسکتی ہو اس کو تقسیم کیئے بغیر اپنا حصہ مسجد کے لئے  وقف کرنا جائز  نہیں ہے۔ نئے سرے سے مکان تقسیم کرکے مسجد کو دیں اور رجسٹری نئے سرے  سے بنوائی جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved