• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے لئے وقف کی گئی جگہ میں درسگاہ بنانا

  • فتوی نمبر: 28-345
  • تاریخ: 24 اگست 2022

استفتاء

مسجد کے لئے ایک جگہ وقف ہےجو  مسجد سے دس قدم دور ہےوہاں اب بنات کا مدرسہ بن چکا ہے،مدرسہ کے اوپر عالمہ باجی کی رہائش ہے یہ جگہ مسجد کے لئے وقف تھی لیکن اب اس جگہ کا مسجد کو کوئی فائدہ نہیں ہورہاہے۔شرعی لحاظ سے یہ پوچھنا ہے کہ ہم نے از سرنو مسجد کی تعمیر کرنی ہے،تو جب تک مسجد تعمیر نہ ہواس وقت تک ہم رہائش کی جگہ ختم کرکے وہاں  بنات کو شفٹ کریں اور نچلے ہال میں نمازیں شروع کریں اور تعمیر مسجد کے بعد وہ جگہ واپس عالمہ کی رہائش کے لئے دے دی جائے گی  یاپھر وہ جگہ جو عالمہ کی رہائش کی ہے اس کو بھی مدرسہ بنادیاجائےگااور عالمہ کو رہائش کےلئے کوئی اور مکان دےدیا جائےگا۔

وضاحت:سائل کا اس مسجد یا مدرسہ سے کیا تعلق ہے؟سائل پوچھنا کیا چاہتا ہے؟

جواب وضاحت: سائل مسجد کی کمیٹی کا فرد ہے۔ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ مسجد کے لئےایک شخص نے مکان وقف کیا ہے لیکن مسجد کو اس جگہ کاکوئی فائدہ نہیں ہورہاہے،اس مکان کے نچلے ہال میں بچیاں پڑھ رہی ہیں اور اوپر والے ہال میں عالمہ باجی کی رہائش ہے،ہم نے ازسر نو پرانی مسجد تعمیر کرنی ہے تو جب تک مسجد تعمیر نہ ہواس وقت تک ہم رہائش کی جگہ ختم کرکے وہاں  بنات کو شفٹ کریں اور نچلے حال میں نمازیں شروع کریں اور تعمیر مسجد کے بعداس مکان  کے دونوں حالوں کو درسگاہ بنالیں۔

اب سوال یہ ہےکہ کیا مسجد کے لئے وقف کی گئی جگہ کو ہم درسگاہ میں تبدیل کرسکتےہیں یانہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جوجگہ مسجد کے لئے وقف ہو اسے مدرسے کے لئے استعمال کرنا درست نہیں۔ البتہ اگر مدرسہ مسجد کے تابع ہو اور اس کی نوعیت ایسی ہو جیسے محلے کے بچے اور بچیاں مسجدوں میں یامساجد کے ساتھ ملحقہ جگہوں میں پڑھنے آتے ہیں  تو ایسے بچے بچیوں کے لئے اسے استعمال کرسکتےہیں۔

درمختار مع ردالمحتار(6/546)میں ہے:

فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك

(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه.

حاشیہ ابن عابدین(4/433)میں ہے:

شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به

ہندیہ (2/408)میں ہے:

من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقة ويأذن بالصلاة أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به وأما الصلاة فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى هكذا في البحر الرائق التسليم في المسجد أن تصلی فيه جماعة بإذنه وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط أداء الصلاة فيه بالجماعة بإذنه اثنان فصاعدا كما قال محمد رحمه الله تعالى رواية الحسن كذا في فتاوى قاضي خان۔

ہندیہ(2/350)میں ہے:

أما ‌تعريفه فهو في الشرع عند أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – حبس العين على ملك الواقف والتصدق بالمنفعة على الفقراء أو على وجه من وجوه الخير بمنزلة العواري كذا في الكافي فلا يكون لازما وله أن يرجع ويبيع كذا في المضمرات ولا يلزم إلا بطريقتين إحداهما قضاء القاضي بلزومه والثاني أن يخرج مخرج الوصية فيقول أوصيت بغلة داري فحينئذ يلزم الوقف كذا في النهاية وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية.

کفایۃ المفتی(7/33)میں ہے:

سوال: ایک مسجد ہے جس کے اطراف میں علوم شریعہ کی درس و تدریس کے لئے مدرسہ بنایا گیا ہے مسجد اور مدرسہ مسلمانوں کے چندے سے بنائے گئے ہیں ۔ تعمیر کے وقت یہ خیال تھا کہ مسجد کو دومنزلہ بنایا جائے کیونکہ مسجدکی جگہ تنگ ہے تاکہ زیادہ آدمی ہوں تو دونوں میں مل کر ایک جماعت سے نماز ادا کر سکیں …………… مسجد کے دونوں طبقوں میں درس علوم شرعیہ خارج اوقات نماز میں دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:  مسجد کی تعمیر میں بانی اور متولی حسب صوابدید خود مسجد کی حیثیت سے تغیر و تبدل کر سکتے ہیں۔ مسجد اراد اهله ان یجعلوا الرحبة مسجدا والمسجد رحبة وارادوا ان یحدثوا له بابا وارادوا ان یحولوا الباب عن موضعه فلهم ذلک فان اختلفوا نظر ايهم اکثرو افضل ذلک کذا فی المضمرات  (عالمگیری)

فتاویٰ مفتی محمود(1/380) میں ہے:

کیا فرماتے ہیں علماءئے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نے ارض کو مسجد کے لیے وقف کیا تو پھر  واقف یا غیر واقف اس جگہ میں مدرسہ بنا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کو کسی اور مصرف میں لانا درست نہیں۔

فتاویٰ محمودیہ (14/340) میں ہے:

ایک شخص نے ایک مکان مسجد کے نام وقف بذریعہ عدالت کردیا تھا جس کو تقریباً 20 سال یا 22 سال گذر چکے ہیں، اس وقت انتظامیہ کمیٹی اختر مسجد کے چند ممبر  ان نے بلا کسی مشورہ سے اس مکان سے کرایہ دار کو بذریعہ  عدالت   نکال دیا اور وہاں مدرسہ تعمیر کرنے لگے اور جو کچھ مسجد کی آمدنی تھی وہ ختم ہوگئی تحریر کریں کہ جائز ہے یا ناجائز؟ شرعاً طریقہ کیا ہے؟

جواب: مسجد کے وقف شدہ مکان پر مدرسہ تعمیر کراکے مسجد کی آمدنی  ختم کرنا جائز نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved