• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے لیے وقف کی گئی زمین

استفتاء

مودبانہ گذارش ہے کہ ہمارے حلقہ / گاؤں جو کہ 10 سے 12 گھروں پر مشتمل ہے اور یہ تمام گھر ایک ہی خاندان کے ہیں اور اس محلے کے لیے ایک مسجد بھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ( تقریباً 12 سال ) خاندان کے کچھ افراد کی آپس میں ناراضگی ہوگئی اور انہوں نے اپنے لیے علیحدہ مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اور مسجد کے لیے جگہ بھی وقف کرلی۔ جبکہ اس جگہ کبھی نماز ادا نہ کی گئی۔ اس دوران خاندان میں صلح ہوگئی اورتمام افرادا سی پرانی مسجد میں نماز ادا کرنے لگ گئے۔ اور جونئی مسجد تعمیر ہونی تھی صلح کے بعد اس کی بنیادیں تو رکھ دی گئیں لیکن تعمیر یا دوسرا کوئی کام نہ ہوسکا۔ اور تقریباً پچھلے 12 سالوں سے مسجد کی وہ جگہ ویسے ہی پڑی ہے۔ کیونکہ پرانی مسجد 12 گھروں کے لیے کافی ہے۔ آیا اس صورت میں دوسری مسجد جس کے لیے جگہ وقف کی تھی اس مسجد کی تعمیر کرنی چاہیے یا نہیں؟ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ آپ کی رہنمائی چاہیے۔

1۔ جس کی صورت یہ ہے کہ مالک زمین نے حالت صحت میں ان الفاظ کے ساتھ زمین کو وقف کیا” اگر مسجد بنانی بھی ہے تو میری طرف سے یہ جگہ وقف ہے اس میں مسجد بنالو”

2۔ مالک زمین نے زمین کسی متولی کی طرف بھی سپرد نہیں کی۔

3۔ نیز باجماعت نماز اذان و اقامت کے ساتھ بھی نہیں پڑھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ زمین  مذکورہ نہ متولی کی طرف سپرد کی گئی اور نہ اس میں اذان و اقامت کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی گئی لہذا یہ ابھی شرعاً وقف نہیں ہوئی لہذا اس کا جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

۱.و شرط محمد و الإمام الصلاة فيه بجماعة. در مختار: 547

۲.و أيضا في الشامية: و إذ قد عرفت أن الصلاة فيه أقيمت مقام التسليم علمت أنه بالتسليم إلى المتولي يكون  مسجداً دونها أي دون الصلاة و هذا هو الأصح كما في الزيلعي و غيره و في الفتح و هوالأوجه لأن التسليم إليه يحصل تمام التسليم إليه تعالى. 6/ 548

التسليم في المسجد أن تصلي فيه الجماعة بإذنه …. يشترط مع ذلك أن تكون الصلاة بأذان وإقامة جهراً لا سراً حتى لو صلى جماعة بغيرأذان و إقامة سراً لا جهراً لا يصير مسجدا عندهما كذا في المحيط و الكفاية … و إذا سلم المسجد إلى متول يقوم بمصالحه يجوز وإن لم يصل فيه و هو الأصح كذا في السراجية الاختيار شرح المختار و هو الأصح كذا في المحيط السرخسي. ( عالمگیری: 2 / 455)

و أيضا فيه و قال محمد لايزول ( أي ملك الواقف ) حتى يجعل للوقف وليا و يسلم إليه و عليه الفتويی كما في السراجية  ويقول محمد يفتي كذا في الخلاصه.

و أما شرائط الجواز فمنها أن يخرجها الواقف من يده و يجعل له قيماً و يسلمه إليه عند أبي حنيفة و محمد … ثم التسليم في الوقف عندهما أن يجعل له قيماً و يسلمه إليه  و في المسجد أن يصلي فيه جماعة  بأذان و إقامة بإذنه كذا ذكر القاضي في شرح الطحاوي ..(بدائع الصنائع: 5/ 328)۔ فقط  واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved