• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے لیے وقف کی ہوئی زمین کو فروخت کرنے کا حکم

  • فتوی نمبر: 28-118
  • تاریخ: 28 فروری 2023

استفتاء

محترم مفتی صاحب زمین مسجد کے لیے وقف کی گئی ہے اور مسجد  کے نام انتقال ہو چکا ہے کیا اس زمین کو فروخت کیا جاسکتا ہے،شرعی حکم بیان فرمائیں۔

تنقیح:پانچ بندوں نے مسجد کیلئے جگہ وقف کی مسجد کاکام شروع ہے ،یہ جگہ چار مرلہ مسجد  سے متصل ہے ،جب اس آدمی نے کہا  کہ  یہ جگہ مسجد کیلئے وقف ہے تو میں نے عرض کیا کہ کیا اس جگہ کو فروخت کرکے مسجد کی تعمیر پر خرچ کرلیں تو واقف نے کہا نہیں اس کو مسجد میں داخل کریں ،واش روم بنالیں ،فروخت نہ کریں اس کے بعد مسجد کے نام پر زمین کا انتقال ہوگیا ،اب مسجد کے پڑوسی کو ضرورت ہےانہوں نے کہا مجھے دے کر رقم مسجد پر خرچ کرلیں ، اگر پڑوسی کو  وہ جگہ نہ دیں  گے تو پڑوسی ناراض ہوجائے گا ،اب واقف بھی فروخت پرراضی ہے وقف کے بعد قانونا اس کا انتقال نہیں ہوسکتا ،کیا وقف  کے بعد شرعا فروخت کیا جاسکتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

وقف کے بعد شرعا  بھی زمین کو فروخت نہیں کیا  جاسکتا۔

توجیہ: چونکہ وقف کے بعد واقف کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے  اور وقف کی ہوئی چیزاللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے لہذا واقف راضی بھی ہوتب بھی وقف کی ہوئی زمین کو فروخت نہیں کیا جاسکتا۔

فتاوی عالمگیری(2/350)میں ہے:

أما تعريفه فهو في الشرع عند أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – حبس العين على ملك الواقف والتصدق بالمنفعة على الفقراء أو على وجه من وجوه الخير بمنزلة العواري كذا في الكافي فلا يكون لازما وله أن يرجع ويبيع كذا في المضمرات ولا يلزم إلا بطريقتين إحداهما قضاء القاضي بلزومه والثاني أن يخرج مخرج الوصية فيقول أوصيت بغلة داري فحينئذ يلزم الوقف كذا في النهاية وعندهما ‌حبس ‌العين ‌على ‌حكم ‌ملك ‌الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved