• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے اوپر امام صاحب کی رہائش بنانا

استفتاء

ایک آدمی نے تقریباً 18 گھر بنادیئے اور جب وہ گھر بنانے کے بعد   فارغ ہوا تو اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ اس کے ساتھ مسجد بھی ہونی چاہیےاور ابھی جگہ بھی موجود نہیں ہے لہٰذا اس نے سوچا کہ ایک گھر کو میں مسجد بنا دیتا ہوں لیکن گھر کا اوپر والا حصہ مسجد میں شمار نہیں کرتا نیچے کا حصہ مسجد کو دیتا ہوں اور اگر ضرورت پڑی تو میں اوپر کا آدھا حصہ مسجد کو دوں گا اور باقی آدھے حصے پر مسجد کے امام کی رہائش وغیرہ بناؤں گا اور دوسری بات اگر ضرورت کے وقت امام کی رہائش کے علاوہ آدھے حصے میں مسجد کی نیت کر لی تو اس کی فیملی کی گزرگاہ بھی اس راستہ سے ہوگی ،تو اس صورت میں مسجد اور گھر بناسکتے ہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے : (1)  مسجد بنالی ہے یا نہیں ؟(2) کیا امام صاحب کے گھر کا کوئی دوسرا راستہ بنایا جاسکتا ہے؟ (3)جب تک اوپر والے آدھے حصے کو مسجد نہیں بناؤ گے اس وقت تک وہ حصہ کس استعمال میں ہوگا؟

جواب : (1)ابھی مسجد نہیں بنائی (2) اگر سوسائٹی والوں سے اجازت مل گئی تو ممکن ہے امام کی رہائش کے لئے الگ سیڑھی لگائی جا سکے لیکن ابھی یہ حتمی نہیں۔ (3) رہائش کے علاوہ اوپر کا حصہ مسجد کی اشیاء رکھنے کے لیئے ہی استعمال ہوگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ  ابھی مسجد نہیں بنی اس لیے اوپر کے حصے میں امام صاحب کے لیے رہائش بناسکتے ہیں اور اگر اس گھر کا الگ راستہ بنانا ممکن ہو تو الگ بنایا جائے اور اگر الگ راستہ ممکن نہیں تو جب تک اوپر کے باقی آدھے حصے میں مسجد کی نیت نہیں کی جاتی اس وقت تک وہاں سے گزر کر گھر جانے میں کوئی حرج  نہیں اور اگر اس میں بھی مسجد کی نیت  کرنے کی ضرورت پڑے تو اس صورت میں امام صاحب کے گھر  کے لیے ایک طرف سے گزرنے کا راستہ چھوڑ کر باقی حصہ  میں مسجد کی نیت کرلی جائے تمام حصہ میں نہ کی جائے کیونکہ تمام حصہ میں نیت کرلینےکی صورت میں بعض حالات میں اس میں سے گزرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

نوٹ: گھر کے اوپرکے حصہ کو اگرچہ شرعی مسجد نہ بنائیں لیکن مکمل  گھر کو مسجد پر وقف  کرنا ضروری ہے اس لیے اس بات کا واضح اعلان کردیا جائے کہ فی الحال اوپر کا حصہ مسجد کی ضروریات کے لیے وقف ہے  لیکن اسے شرعی مسجد بنانے کی نیت نہیں تاکہ کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔

الدر المختار(6/549) میں ہے:

لو بنى فوقه بيتا للامام لا يضر لانه من المصالح. اما لو تمت المسجدية ثم اراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق.

الدر المختار(1/343) میں ہے:

ويحرم بالحدث الاكبر دخول مسجد ولو لعبور الا بضرورة حيث لا يمكنه غيره.

رد المحتار(1/345) میں ہے:

ولا نجيز العبور في المسجد بلا تيمم.

البحر الرائق(5/421) میں ہے:

لو بنى بيتا على السطح المسجد لسكنى الامام فانه لا يضر فى كونه مسجدا لانه من المصالح.

احسن الفتاویٰ(6/444) میں ہے:

سوال: امام  کی سکونت کے لیے  مسجد کے اوپر مکان تعمیر کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: زمین کے جتنے قطعہ کو ایک بار مسجد  شرعی قرار دے دیا گیا اس کے اندر اور نیچے اوپر کوئی دوسری چیز بنانا جائز نہیں، مسجد شرعی قرار دینے سے قبل امام کے لیے یا مصالح مسجد کے لیے اور کچھ بنانا طے کرلیا اور اس کی عام اطلاع بھی کردی ہو تو جائز ہے، مسجد شرعی ہوجانے کے بعد اگر متولی نے شروع ہی سے نیت کا  دعویٰ کیا تو یہ قبول نہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved