• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کی جگہ کا دوسرے شخص کی جگہ سے تبادلہ کرنا

  • فتوی نمبر: 27-140
  • تاریخ: 30 مئی 2023

استفتاء

فتویٰ برائے تبادلہ وقف شدہ جگہ برائے مسجد(رقبہ تعدادی 8*44تعمیر شدہ 3عدد واش روم بمعہ وضو خانہ، راستہ مسجد

اگر کوئی  شخص مسجد کو جگہ وقف کردے اور مسجد انتظامیہ (اس جگہ میں وا ش روم، وضو خانہ  بنائے اور مسجد کے راستہ کے لیے استعمال کرے لیکن یہ راستہ مسجد کے اندر ہال میں نکلتا ہے صحن کے ساتھ متصل نہیں ہے) چونکہ یہ جگہ مسجد میں (یعنی نماز پڑھنے کی جگہ میں)شامل نہ ہے اور اس کے علاوہ مسجد کا کوئی دوسرا راستہ نہ ہے اس لیے ہال بھر جانے کے بعد  مسجد میں داخل ہونے کے لیے نمازیوں کی صفیں خراب کرتے ہوئے صحن میں جانا پڑتا ہے اب مزید جگہ خریدنے کے بعد اس جگہ کا صحن سے ملحقہ مکان سے تبادلہ کرنا درکار ہے، آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے میں برائے مہربانی فتویٰ جاری فرمائیں۔

تنقیح: مسجد کی ضروریات کے لیے تنگی تھی تو ایک شخص نے مسجد کے ایک پہلو  میں اپنی 3 مرلہ جگہ  موجودہ مسجد کے لیے وقف کی۔ اس جگہ پر واش روم ، وضو خانہ اور  راستہ بنائے گئے ، بعد میں مسجد کے دوسرے پہلو میں 5 مرلے کا ایک مکان فروخت ہورہا تھا ۔ اس میں سے 2 مرلہ جگہ مسجد کی ضروریات کے لیے خرید لی گئی ہےباقی 3 مرلہ کسی دوسرے شخص نے خرید لی ہے۔ مسجد کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ مسجد کی تمام ضروریات ایک جانب ہوجائیں   اس کے لیے انتظامیہ نے اس دوسرے شخص سے کہا ہے کہ  تم اپنی 3 مرلے جگہ کا مسجدکی دوسری جانب 3 مرلے جگہ سے تبادلہ کرلو  جہاں پر واش روم  وغیرہ بنے ہوئے ہیں۔ تاکہ مسجد کے پاس ایک ہی جانب 5 مرلہ جگہ آجائے اور ساتھ مسجد میں جانے کے لیے  بجائے ہال کے صحن کی جانب سے راستہ بھی نکل آئے۔ کیا یہ تبادلہ جائز ہے؟

مزید وضاحت:3 مرلہ پلاٹ کے وقف کرنے والے  کی طرف سے بھی مسجد کی سہولت کے لیے تبادلہ کی اجازت دے دی گئی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

راجح قول کے مطابق مذکورہ تبادلہ جائز نہیں ، تاہم اگر انتظامیہ اس تبادلے میں مسجد کا زیادہ فائدہ محسوس کرتی ہے تو اس کی گنجاش ہے، جیساکہ مندرجہ ذیل عبارات میں سے خط کشیدہ عبارات سے معلوم ہوتا ہے۔

توجیہ: پہلے کا تین مرلہ پلاٹ وقف کرنے کے بعد جب  مسجد کے متولی کے حوالہ کردیا گیا تو وہ پلاٹ وقف کرنے والے کی ملکیت  سے نکل کر خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہوگیا، پھر چونکہ وہ جگہ مسجد کے کام بھی آتی ہے، بے کار نہیں ہے اس لیے اس  جگہ کو بیچنا یا اس کا تبادلہ کرنا جائز نہیں ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني(6/223)میں ہے:

سئل شمس الإسلام الحلواني عن ‌أوقاف ‌المسجد إذا تعطلت وتعذر استغلالها هل للمتولي أن يبيعها ويشتري مكانها أخرى؟ قال: نعم، قيل: إذا لم يتعطل ولكن يوجد بثمنها ما هو خير منها هل له أن يبيعها؟ قال: لا، ومن المشايخ من لم يجوز بيع الوقف تعطل أو لم يتعطل، وكذا لم يجوز الاستبدال بالوقف، وهكذا حكى فتوى شمس الأئمة السرخي رحمه الله في فصل العمارة إذا ضعفت الأراضي الموقوفة عن الاستغلال والقيم يجد بثمنها أرضاً أخرى هي أكثر ريعاً أن له أن يبيع هذه الأرض ويشتري بثمنها ما هو أكثر ريعاً.

وفي «المنتقى» : قال هشام: سمعت محمداً رحمه الله يقول في الوقف: إذا صار بحيث لا ينتفع به المساكين فللقاضي أن يبيعه ويشتري بثمنه غيره، وليس ذلك إلا للقاضي

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/346) میں ہے:

وَفِي الْخَانِيَّةِ الْمُتَوَلِّي إذَا اشْتَرَى مِنْ ‌غَلَّةِ ‌الْمَسْجِدِ ‌حَانُوتًا أَوْ دَارًا أَوْ مُسْتَغَلًّا آخَرَ جَازَ لِأَنَّ هَذَا مِنْ مَصَالِحِ الْمَسْجِدِ فَإِنْ أَرَادَ الْمُتَوَلِّي أَنْ يَبِيعَ مَا اشْتَرَى أَوْ بَاعَ اخْتَلَفُوا فِيهِ قَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَجُوزُ هَذَا الْبَيْعُ لِأَنَّ هَذَا صَارَ مِنْ أَوْقَافِ الْمَسْجِدِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ هَذَا الْبَيْعُ وَهُوَ الصَّحِيحُ لِأَنَّ الْمُشْتَرِيَ لَمْ يَذْكُرْ شَيْئًا مِنْ شَرَائِطِ الْوَقْفِ فَلَا يَكُونُ مَا اشْتَرَى مِنْ جُمْلَةِ أَوْقَافِ الْمَسْجِدِ. اهـ.

وَفِي الْقُنْيَةِ إنَّمَا يَجُوزُ الشِّرَاءُ بِإِذْنِ الْقَاضِي

لسان الحكام (ص296) میں ہے:

وَفِي الْفَتَاوَى الظَّهِيرِيَّة سُئِلَ الْحلْوانِي ‌عَن ‌أوقاف ‌الْمَسْجِد إِذا تعطلت وَتعذر استغلالها هَل للمتولي أَن يَبِيعهَا وَيَشْتَرِي مَكَانهَا أُخْرَى قَالَ نعم قيل إِن لم تتعطل وَلَكِن يُوجد بِثمنِهَا مَا هُوَ خير مِنْهَا هَل لَهُ أَن يَبِيعهَا قَالَ لَا وَمن الْمَشَايِخ من لم يجوز بيع الْوَقْف تعطل أَو لم يتعطل وَبِه قَالَ الشَّافِعِي وَمَالك رحمهمَا الله تَعَالَى وَكَذَا لم يجوزوا الِاسْتِبْدَال بِمَا هُوَ خير مِنْهَا وَفِي السّير الْكَبِير قَالَ أَبُو يُوسُف يجوز الِاسْتِبْدَال بالأوقاف وَفِي الْمُنْتَقى قَالَ هِشَام سَمِعت مُحَمَّدًا يَقُول الْوَقْف إِذا صَار بِحَيْثُ لَا ينْتَفع بِهِ الْمَسَاكِين فللقاضي أَن يَبِيعهُ وَيَشْتَرِي بِثمنِهِ غَيره وَلَيْسَ ذَلِك الا للْقَاضِي وَذكر فِي المنبع عَن أبي يُوسُف أَنه يجوز استبدال الأَرْض الْمَوْقُوفَة إِذا تعطلت لِأَن الأَرْض قد تخرب فَلَا تغل إِلَّا بمؤنة تربو على قيمتهَا.

فتاویٰ عالمگیری(2/464) میں ہے:

وفي فوائد نجم الدين النسفي – رحمه الله تعالى – أهل مسجد اشتروا عقارا بغلة المسجد ثم باعوا العمارة واختلف المشايخ في جواز بيعهم والصحيح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية

شامی(6/592) میں ہے:

قال القارىء الهداية: وإن كان للوقف ريع ولكن يرغب شخص فى استبداله إن أعطى مكانه بدلا اكثر ريعا منه فى صقع احسن من صقع الوقف جاز عند أبى يوسف والعمل عليه.

شامی(6/594) میں ہے:

مطلب: لايستبدل العامر الا فى أربع

……………. الرابعة: أن يرغب انسان  فيه ببدل اكثر غلة واحسن صقعا، فيجوز على قول ابى يوسف، وعليه الفتوى كما فى فتاوى قارىء الهداية. قال اصحاب النهر فى كتابه إجابة السائل: قول قارىء الهداية: والعمل على قول أبى يوسف  معارض بما قاله صدر الشريعة: نحن لانفتى به، وقد شاهدنا فى الاستبدال ما لا يعد ولايحصى فإن ظلمة القضاة جعلوه حيلة لإبطال اوقاف المسلمين، وعلى تقديره فقد قال فى الاسعاف: المراد بالقاضى هو قاضى الجنة المفسر بذى العلم والعمل. ولعمرى أن هذا اعزّ من الكبريت الأحمر، وما أراه الا لفظا يذكر، فالأحرى فيه السدّ خوفا من مجاوزة الحد، والله سائل كل انسان.

 قال العلامة البيرى بعد نقله اقول وفى فتح القدير والحاصل ان الاستبدال عن شرطه  اولا عن شرطه فان كان لخروج الوقف عن انتفاع الموقوف عليهم فينبغى أن لايختلف فيه وإن كان لا لذالك بل إتفق أنه امكن أن يؤخذ بثمنه ما هو خير منه مع كونه منتفعا به فينبغى أن لايجوز لان الواجب ابقاء الوقف على ما كان عليه دون زيادة ولانه لاموجب لتجويزه لان الموجب فى الاول الشرط وفى الثانى الضرورة ولاضرورة فى هذا اذ لاتجب الزيادة بل نبقيه كما كان…. الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved