• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کی قریبی جگہ میں منسوخ شدہ مسجد کی دوبارہ تعمیر اورایک عالم صاحب کی مخالفت

  • فتوی نمبر: 15-177
  • تاریخ: 14 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل صورت مسئلہ کے بارے میں ؟ہمارے ہاں مسلک علماء دیوبند  کی ایک مسجد چند سالوں سے زیر تعمیر ہے اور وہاں نمازیں بھی ادا کی جا رہی ہیں ۔ اسی اثناء میں ایک گلی کے فاصلہ پر ایک عورت  اسی مسلک کی دوسری مسجد تعمیر کروانے کی خواہش مند تھی۔ اور اس نے مسجد کی تعمیر شروع بھی کر دی ۔ابھی نئی مسجد کی تعمیر پہلی چھت پہنچی تھی کہ منتظمین مسجد نے اس کی تعمیر کو منسوخ کر دیا اور اس بات کا فیصلہ کیا کہ یہاں مسجد تعمیر نہیں کی جائے گی اور اس مسجد کا سامان سابقہ جامعہ مسجد جو کہ چند سالوں سے زیر تعمیر ہے کو دیدیا جائے گا ۔

دونوں مساجد کے درمیان تقریباً  140 فٹ کا فاصلہ ہے ۔رہنمائی فرما دیں کہ اگر اتنے فاصلے پر مسجد بنانا درست ہے تو ہم مسجد بنا لیں گے اور اگر مدرسہ بنانا درست ہے تو ہم مدرسہ بنالیں گے حالانکہ اس گلی میں کچھ فاصلہ پر پہلے بھی مدرسہ موجود ہے جو کہ تقریباً 300 فٹ کے فاصلے پر ہے۔

نوٹ: مذکورہ جگہ اس عورت کی اپنی ذاتی ملکیت تھی اس کا تحریری وقف نامہ نہیں بنایا گیا اس کی تاحال تعمیر میں لوگوں کا پیسہ بھی استعمال ہوا ہے۔ابھی تک اس دوسری زیر تعمیر جگہ میں کوئی نماز اذان نہیں ہوئی ،صرف نیت ہوئی ہے اور لوگوں نے چندہ دیا ہے ۔ایک عالم صاحب  پہلے اس جگہ آئے تو انہوں نے کہا کہ مسجد بن سکتی ہے اب وہی عالم صاحب کہتے ہیں کہ یہاں مسجد نہیں بن سکتی۔اب مفتیان کرام سے یہ راہنمائی مطلوب ہے کہ مذکورہ بالا تفصیلی حالات کے پیش نظر جواب دیا جائےکہ کیا اس جگہ مسجد بنانا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ جگہ پر مسجد تعمیر کرنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

چنانچہ البحر الرائق میں ہے :

واذا قسم اهل المحلة المسجد و ضربوا فيه حائطا ولكل منهم امام علي حدة و مؤذنهم واحد لا باس به.

چونکہ اس جگہ مسجد کی تمامیت صادق نہیں آتی اس لیے اس جگہ کو بیچ کر دوسری مسجد کے اوپر اس کی آمدنی خرچ کرنا جائز ہےاور یہ مسجد تب کہلائے گی کہ جب اس میں نماز ادا کر لی جائے ۔

 رجل وقف وقفا ولم يذكر الولاية لاحد قيل الولايه للواقف هذا عند ابي يوسف لان عنده التسليم ليس بشرط اما عند محمد فلا يصح الوقف و به يفتى كذا في السراجية(عالمگیری ج2، ص 408)

من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرز عن ملكه بطريقه و ياذن بالصلوة فيه واذ صلى فيه واحد زال ملكه (تبیین الحقائق ج2،ص 239)

(عالمگیری ج 2 ،ص464)

وفی فوائد نجم الدین النسفی رحمه الله اهل المسجد اشتروا عقارا بغلة المسجد ثم باعوا العمارة اختلف المشائخ في جواز بيعهم والصحيح انه يجوز”

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved