• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کی صفیں مدرسے میں استعمال کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین کہ  مساجد کی اشیاء کو مدارس میں لگانے کا شرعی حیلہ کیا ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے : (1)مسجد کی کون سی اشیاء مدرسے میں لگانی ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟(2) مسجد و مدرسے کا متولی ایک ہی ہے یا مختلف(3)مسجد و مدرسے کا فنڈ  ایک ہی ہے یا الگ الگ ہے؟

جوابِ وضاحت: (1)مسجد کی صفیں، مدرسے میں ضرورت کی وجہ سے(2)ایک ہی ہے(3) الگ الگ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسجد کی صفیں مدرسے میں استعمال کرنا جائز نہیں البتہ اگر مسجد میں ان کی ضرورت نہ ہو تو ان صفوں کی رقم ادا کر کے انہیں  مدرسے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

البحر الرائق (5/ 234) میں ہے:

إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف. وكذا إذا اختلف الواقف لا الجهة يتبع شرط الواقف وقد علم بهذا التقرير إعمال الغلتين إحياء للوقف ورعاية لشرط الواقف هذا هو الحاصل من الفتاوى. اهـ. وقد علم منه أنه لا يجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة ‌صرف ‌أحد ‌الوقفين ‌للآخر

شامی(4/ 377)میں ہے:

(وصرف) الحاكم أو المتولي حاوي (نقضه) أو ثمنه إن تعذر إعادة عينه (إلى عمارته إن احتاج وإلا حفظه له ليحتاج) إلا إذا خاف ضياعه فيبيعه ويمسك ثمنه ليحتاج حاوي

و في الشامية:ويزاد ما في الفتح حيث قال: واعلم أن عدم جواز بيعه إلا إذا تعذر الانتفاع به إنما هو فيما إذا ورد عليه وقف الواقف أما إذا اشتراه المتولي من مستغلات الوقف فإنه يجوز بيعه بلا هذا الشرط لأن في صيرورته وقفا خلافا والمختار أنه لا يكون وقفا فللقيم أن يبيعه متى شاء لمصلحة عرضت

شامی (4/ 445)میں ہے:

أنهم صرحوا بأن مراعاة ‌غرض ‌الواقفين ‌واجبة

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 237) میں ہے:

 (ويصرف ‌نقضه إلى عمارته إن احتاج وإلا حفظه للاحتياج ولا يقسمه بين مستحقي الوقف) بيان لما انهدم من بناء الوقف وخشبه والنقض بالضم البناء المنقوض والجمع نقوض ۔۔۔۔۔۔۔۔ وإن استغنى عنه أمسكه إلى أن يحتاج إلى عمارته ولا يجوز قسمته بين مستحقي الوقف لأنه جزء من العين ولا حق للموقوف عليهم فيها وإنما حقهم في المنافع والعين حق الله تعالى فلا يصرف لهم غير حقهم ولم يذكر المصنف بيعه قال في الهداية وإن تعذر إعادة عينه إلى موضعه بيع وصرف ثمنه إلى المرمة صرفا للبدل إلى مصرف المبدل. اه. وظاهره أنه لا يجوز بيعه حيث أمكن إعادته وهل يفسد البيع أو يصح مع إثم المتولي لم أره صريحا وينبغي الفساد وقدمنا أنه لا يجوز بيع بعض الموقوف لمرمة الباقي بثمن ما باع زاد في التتارخانية أن المشتري لو هدم البناء ينبغي عزل الناظر ولا ينبغي للقاضي أن يأتمن الخائن وسبيله أن يعزله. اه وفي الحاوي فإن خيف هلاك النقض باعه ‌الحاكم وأمسك ثمنه لعمارته عند الحاجة. اهـ.فعلى هذا يباع النقض في موضعين عند تعذر عوده وعند خوف هلاكه

وفي منحة الخالق: (قوله فعلى هذا) يباع النقض في موضعين يزاد عليهما ما في الفتح حيث قال واعلم أن عدم جواز بيعه إلا إذا تعذر الانتفاع به إنما هو فيما ورد عليه وقف الواقف أما فيما اشتراه المتولي من مستغلات الوقف فإنه يجوز بيعه بلا هذا الشرط وهذا لأن صيرورته وقفا خلافا والمختار أنه لا يكون وقفا فللقيم أن يبيعه متى شاء لمصلحة عرضت اهـ

الجوہرة النيرة على مختصر القدوری (1/ 338) میں ہے:

وإن استغني عن حصر المسجد وخشبه وحنفيته نقل إلى مسجد آخر عند أبي يوسف، وقال بعضهم يباع ويصرف في مصالح المسجد ولا يجوز ‌صرف ‌نقضه إلى عمارة بئر؛ لأنها ليست من جنس المسجد. وكذا البئر لا يصرف نقضها إلى مسجد بل يصرف إلى بئر أخرى

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (3/ 328) میں ہے:

«(ويصرف ‌نقضه إلى عمارته إن احتاج وإلا حفظه للاحتياج) أي إلى الاحتياج لأنه لا بد من العمارة وإلا فلا يبقى فلا يحصل ‌صرف الغلة إلى المصرف على التأبيد فيبطل غرض الواقف فيصرفه للحال إن احتاج إليه وإلا يمسكه حتى يحتاج إليه كي لا يتعذر عليه أوان الحاجة»

کفایت المفتی(7/67)میں ہے:

سوال:مسجد کا پرانا سامان اور ملبہ جو اسی مسجد کی تعمیرِ جدید میں کام نہ آ سکتا ہو فروخت کر دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:مسجد کا پرانا سامان اور ملبہ جو اسی مسجد کی تعمیرِ جدید میں کام نہ آ سکتا ہو فروخت کر دینا جائز ہے۔ بہتر یہ ہے مسلمان کے ہاتھ فروخت کیا جائےاور اس کی قیمت کو اسی مسجد کی ضروریاتِ تعمیر میں یا جس قسم کا سامان تھا اسی کی مثل میں صرف کر دیا جائے۔

فتاویٰ محمودیہ (14/578)میں ہے:

سوال:مسجد کی چیز پتھر وغیرہ مدرسہ میں لگا سکتے ہیں یا نہیں؟ مفت ہوں یا قیمتاً ، کیا صورت ہے؟

الجواب:اگر پتھر وغیرہ کوئی چیز مسجد کے لئے خریدی گئی ،  پھر اس کی ضرورت نہیں رہی تو مدرسہ یا کسی دوسری مسجد میں قیمتاً اس کو لگانا درست ہے۔

امداد الفتاویٰ جدید مطول (6/35) میں ہے:

مدرسہ مسجد کی جنس میں سے  نہیں اس لیے زائد رقم دوسری مساجد میں صرف کرنا چاہیے۔ اگر اس شہر میں حاجت نہ ہو  تو دوسرے شہروں کی مساجد میں صرف کریں جو زیادہ قریب ہو اس کا حق مقدم ہے اسی طرح بترتیب۔

فتاویٰ رحیمیہ (9/129) میں ہے:

سوال  :***ایک مسجد کا متولی ہے ، کچھ عرصہ پہلے اس کی مسجد غریب تھی پھر اصحاب خیر کے تعاون سے کافی مالدار ہوگئی اور سامان بھی کافی مقدار میں  جمع ہوگیا ہے مثلاً کئی کئی گھڑیاں  ، پنکھے ، صفیں  ، دریاں  ، چادریں  اورقرآن پاک بھی اچھی خاصی زائد مقدار میں  ہیں  اسی طرح پاروں  کی پیٹیاں  اور دیگر اشیاء ۔سوال یہ ہے کہ کیا ***اس زائد سامان کو کسی غریب مسجدوالوں  کودے سکتا ہے اور وہ مسجد دور ہے اور حد سے زیادہ غریب ہے ، حتیٰ کہ وضو کے لوٹے تک اس مسجد کے پاس نہیں  ہیں  ، کیا یہ زائد سامان غریب مدرسہ بھی استعمال کرسکتا ہے ؟

الجواب:صورت مسئولہ میں  مذکورہ مسجد کا زائد سامان جس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے یہ زائد سامان مذکورہ مسجد سے بہت دور کی مسجد کے لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مذکورہ صورت میں  مناسب یہ ہے کہ ضرورت مند مسجد و مدرسہ اس زائد سامان کو مناسب دام سے خرید لیں  اور دام ادا کرکے پھر ضرورت مند مسجد (جب کہ اس کی رقم سے یہ سامان خریدا گیا ہو ) میں  استعمال کریں  یا کوئی صاحب خیریہ زائد سامان خرید کر اس مسجد یا مدرسہ کو دیدے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved