• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کی تعمیر ی اخراجات کے لیے چندہ کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں مسجد کے لیے لاؤڈ سپیکر میں اعلان کرکے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور ہر مہینے گاؤں میں اکثر لوگوں سے جو مالی لحاظ سے بہتر ہیں،1000 کسی سے 500 اور ہر دکاندار سے 200 روپے لیے جاتے ہیں کیایہ جائز ہے ؟اور کیا مسجدکےچندہ میں سے امام کی تنخواہ دینا جائز ہے ؟برائے مہربانی دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے: چندہ کرنے کے لئے اعلان کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

جو ابِ وضاحت: چندہ کے اعلان کا طریقہ یہ ہے کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر میں اعلان کیا جاتا ہے کہ مسجد کی تعمیراور مسجد کے اخراجات کےلئے چندہ کی ضرورت ہےپھر ہر پیسے  دینے والے کا باقاعدہ نام لیا جاتا ہے کہ فلاں بن فلاں نے مسجد کی خدمت میں اتنے پیسے دیے ہیں۔ ہر دکان اور ہر گھر سے مسجد کی خدمت کے نام سے مخصوص طے شدہ پیسے لے جاتے ہیں لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ مشورہ میں یہ طے ہوا  ہے کہ  دوکان سے اتنےاور گھروں سے  اتنے پیسے لینے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسجد کی تعمیر اور اخراجات کے لئے اعلان کر کے چندہ کرنا جائز ہے ،البتہ مخصوص لوگوں پر ان کی دلی رضامندی کے بغیر مخصوص مقدار مقرر کر کے لینا جائز نہیں ۔نیز مسجد کے چندہ سےامام کی تنخواہ دینا جائز ہے۔

چنانچہ درمختار (4/ 366)میں ہے:

 ويبدأ من غلته بعمارته ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم وفى الردتحت قوله ( ثم ما هو أقرب لعمارته الخ ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة ……ثم ما هو أقرب إلى العمارة وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

امام مسجد کی ضروریات میں سے ہے اور مسجد کےچندہ سےامام کو تنخواہ دینا جائز ہے۔(ج 3 ص 387)

فتح البارى: 4/40

وان كان المتطوع ممن يقتدى به ويتبع و تنبعث الهمم على التطوع بالانفاق وسلم قصده فالاظهار اولى.

عمدة القارى: 8/285

(وان تخفوها وتؤتوها الفقراء )فيه دليل على أن اسرار الصدقةافضل من اظهارها لانه ابعد عن الرياء الا ان يترتب على الاظهار مصلحةراجحة من اقتداء الناس به فيكون أفضل من هذه الحيثية

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved