• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کی طرف ملی ہوئی رہائش گاہ میں ذاتی رقم سے گیٹ لگوانا

  • فتوی نمبر: 6-145
  • تاریخ: 16 ستمبر 2013

استفتاء

ہمارے ایک امام مسجد تقریباً چھ سال قبل مسجد کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو گئے تھے، اب وہ تشریف لائے ہیں اور انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ دوران ملازمت انہوں نے مسجد انتظامیہ کی طرف سے مہیا کردہ  رہائش گاہ میں ذاتی خرچ سے دروازہ نصب کروایا تھا، جس کی رسید بھی انہوں نے پیش کی ہے۔ جس پر 9000 روپے خرچ آیا تھا، جو انہیں تا حال ادا نہیں ہوا، چنانچہ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ رقم انہیں ادا کی جائے۔

کیا مسجد انتظامیہ ہی رقم ادا کرنے کی پابند ہے؟ جبکہ مسجد انتظامیہ کو یاد بھی نہیں ہے کہ یہ معاملہ کب اور کیسے ہوا تھا۔

امام صاحب کی طرف سے وضاحت:

اس وقت دروازے کے بارے میں امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے مسجد کی انتظامیہ (جو کہ اس وقت صرف حاجی گلزار صاحب مرحوم تھے ان) کو کہا تھا کہ مجھے دروازے کی ضرورت ہے، تو انتظامیہ یعنی حاجی صاحب مرحوم نے فرمایا تھا کہ اچھا دیکھیں گے، یعنی دروازہ لگوانے کی کوئی حامی نہیں بھری۔ اس لیے میں نے خود ہی دروازہ لگوا لیا اور چونکہ اس وقت میں آسودہ حال تھا، اس لیے لگوانے کے بعد اس کی رقم کا کوئی مطالبہ انتظامیہ سے نہیں کیا۔

پھر جب مکانات کی نئی تعمیر ہوئی تو اس دوران میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے دروازہ کو اٹھا لوں گا، لیکن تعمیر نو کرنے والوں (عرفان بٹ صاحب) نے وہ دروازہ اوپر لگا دیا، میں نے ان سے کہا کہ یہ دروازہ تو میرا ہے، تو انہوں نے کہا اب تو اوپر لگ چکا ہے۔ میں نے خاموشی اختیار کر لی، لیکن دل میں تھا کہ بعد میں بات کروں گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں امام صاحب کو مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر گیٹ کی قیمت لینے کا حق نہیں ہے:

1۔ امام صاحب نے سابقہ انتظامیہ کی صریح اجازت کے بغیر گیٹ بنوا کر لگوایا۔

2۔ انتظامیہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم گیٹ لگوا لو خرچہ ہم دیں گے۔

3۔ آسودہ حالی کی وجہ سے کئی سال تک مطالبہ چھوڑے رکھا، جو اس بات کا قرینہ ہے کہ امام صاحب نے خود ہی گیٹ کو وقف میں شامل کر دیا۔

4۔ وقف کی عمارت میں گیٹ لگوایا تو وہ غیر منقولہ کی طرح ہو گیا۔

5۔ امام صاحب نے گیٹ بنواتے، لگواتے ہوئے کوئی گواہ نہیں بنائے۔

6۔ رسید سے امام صاحب کی تخصیص ثابت نہیں ہوتی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved