- فتوی نمبر: 29-192
- تاریخ: 09 جون 2023
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے اپنی جامع مسجد کی توسیع کے لیے مسجد کے مشرقی جانب متصل پلاٹ کے ساتھ والا پلاٹ خریدا اور ساتھ یہ بھی نیت کی کہ مسجد اور ہمارے خریدے ہوئے پلاٹ کے درمیان والا خالی پلاٹ بھی انشاء اللہ خرید کر دونوں پلاٹوں کو مسجد کی توسیع میں شامل کرلیں گے۔ اس سلسلے میں ہم نے پلاٹ کے مالک سے بات چیت بھی شروع کردی کہ یہ پلاٹ آپ ہمیں فروخت کردیں تاکہ ہم پوری مسجد از سر نو تعمری کریں (یاد رہے کہ ہماری مسجد فی الحال عارضی طور پر موجود ہے باقاعدہ نقشہ سے تعمیر نہیں ہے ہماری نیت یہ تھی کہ مزید جگہ خرید کر اس کو باقاعدہ نقشہ سے تعمیر کریں گے) پلاٹ کے مالک نہ پلاٹ فروخت کرنے پر راضی ہوئے اور نہ صاف انکار کرتے بلکہ ٹال مٹول کی کیفیت ہوتی۔ اسی صورتحال کے پیش نظر کمیٹی کے ارکان کی پلاٹ خریدتے وقت یہ رائے بھی تھی کہ اگر مسجد کے متصل پلاٹ کی بات نہ بنی تو ہم پلاٹ کے مالک سے یہ درخواست کریں کہ آپ ہمیں اس کی اجازت دیں کہ ہم اپنا پلاٹ آپ کے پلاٹ سے بدل لیں تاکہ ہم مسجد کی تعمیر شروع کرائیں لیکن پلاٹ کے مالک نے اس بات پر بھی خاموشی اختیار کی اور کوئی مثبت جواب نہ آیا بہر حال کافی عرصہ گذر گیا اور دونوں پلاٹ اسی طرح موجود رہے، پھر ہم نے دوبارہ مالک پلاٹ سے پلاٹ خریدنے کے لیے رابطہ کیا اس مرتبہ مالک پلاٹ پلاٹ فروخت کرنے پر تو راضی نہ ہوئے البتہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ آپ میرے پلاٹ سے اپنے پلاٹ کو تبدیل کرلیں (یاد رہے کہ دونوں پلاٹ رقبہ میں برابرہیں) مذکورہ صورت حال کے پیش نظر ہماری رہنمائی فرمائیں آیا ہمارے لیے مسجد کی ضرورت کے لیے خریدے گئے پلاٹ کے عوض اس پلاٹ کے ساتھ جو مسجد کے متصل ہے تبدیل کرنا جائز ہے جبکہ دونوں فریق اس بات پر راضی ہیں کہ یہ کام کرلیا جائے تاکہ مسجد کی توسیع وتعمیر میں خلل واقع نہ ہو۔ اس مسئلے میں ہماری رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
تنقیح: یہ مسجد باقاعدہ وقف ہے جبکہ مذکورہ بالا پلاٹ چندہ کے پیسوں سے خریدا گیا ہے، پلاٹ خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ اگر ضرورت پڑی تو یہ پلاٹ بدل لیں گے جس کا ذکر بیع نامے میں بھی ہے۔
بیع نامے کی عبارت:
………………………….. یہ کہ انجمن جامع مسجد اسماعیل پلاٹِ مبيعہ مذکورہ بالا کو جامع مسجد اسماعیل کی تزین وآسائش وتوسیع وغیرہ کرنے کی صورت میں حسب ضرورت پلاٹ مذکورہ بالا کو جب چاہے بیع/ ٹرانسفر، رہن تبادلہ وغیرہ کرے …………………….
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مسجد کی توسیع کے لیے خریدے گئے پلاٹ کو مسجد کے متصل پلاٹ سے بدلنا جائز ہے کیونکہ یہ مملوک وقف ہے اور مملوک وقف کو وقف کی بہتری کے لیے بیچا جا سکتا ہے ۔
تاتارخانیہ (6/266) میں ہے:
متولى المسجد إذا اشترى بمال المسجد حانوتا أو دارا ثم باعها جاز وإذا كانت له ولاية الشراء. وفي التنجيس: في الفتاوى: قال الامام حسام الدين هذا هو المختار.
فتح القدیر (7/752) میں ہے:
أما فيما اشتراه المتولي من مستغلات الوقف فإنه يجوز بيعه بلا هذا الشرط، وهذا لأن في صيرورته وقفا خلافا والمختار أنه لا يكون وقفا فللقيم أن يبيعه متى شاء لمصلحة عرضت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved