• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد میں اسکول چلانا

  • فتوی نمبر: 27-267
  • تاریخ: 07 جون 2022

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سوات میں واقع دارالافتاء والتحقیق نشاط چوک مینگورہ میں ایک  مدرسہ کے مہتمم صاحب تشریف لائے اور استفتاء کیا کہ مسجد میں مستقل اسکول چلانا جائز ہے یا نہیں؟ دارالافتاء کی طرف سے جواب ملا کہ جائز نہیں ہے۔ مہتمم صاحب نے پھر سوال کیا کہ میں جب مسجد کو وقف کرنا چاہتا تھا تو میری نیت یہ تھی کہ اس میں مستقل اسکول ہوگا اور دارالعلوم کراچی کے ایک جواب سے جواز  معلوم ہوتا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مسجد میں ابتدائی طور پر مسجد کے حدود میں ہسپتال، لائبریری بنانا جائز ہے، دارالافتاءکی طرف سے دوبارہ جواب ملا کہ مسجد کی تعمیر کے وقت آپ کی اسکول کی نیت درست نہیں تھی، لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئے  اور مطالبہ کیا کہ بڑے اداروں کے دارالافتاء سے مجھے جواب چاہیے۔ لہٰذا آپ حضرات  مہربانی فرما کر جواب ارسال فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسجد میں اسکول چلانا جائز نہیں،چاہے مستقل ہو یا غیر مستقل ۔اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں(1) بچوں سے فیس لی جائے گی جبکہ مسجد میں اجرت لے کر  عام حالات میں دینی کام کرنا بھی جائز  نہیں  تو اسکول کی تعلیم کیونکر جائز ہوگی۔ (2)  مسجدیں  صرف ذکر و عبادت اور دینی تعلیم و تعلم کیلئے ہوتی ہیں ، ان میں کوئی بھی دنیاوی کا م کرنا جائز نہیں چاہےاس کی اجرت بھی نہ لی جاتی ہواور چونکہ اسکول کی تعلیم بھی دنیا کی تعلیم و  تعلم کے زمرے میں آتی ہےاس لیئے اسکول کی تعلیم بھی  مسجد میں جائز نہ ہوگی (3)مسجدمیں  اسکول چلانے  کی صورت  میں مسجد کے دیگرآداب کی بھی خلاف ورزی ہوگی مثلا بچوں  کا شور کرنا ،مسجد میں تصاویر(جو عموما اسکول کی کتابوں میں ہوتی ہیں) کا لانا  وغیرہ

البحر الرائق(2 / 36)میں ہے:

"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد”.

حلبی كبير (611)ميں ہے:

يجب ان تصان عن ادخال الرائحة الكريهة…..وادخال المجانين والصبيان لغير الصلاة ونحوها……فالحاصل ان المساجد بنیت لاعمال الآخرۃ مما لیس فيه توهم اهانتها وتلويثها مما ینبغی التنظیف منه ولم تبن لاعمال الدنیاولولم یکن فيه توهم تلویث واهانة علی ما اشار اليه قوله عليه الصلاۃ والسلام فان المساجد لم تبن لهذا فما کان فيه نوع عبادت ولیس فيه اهانة  ولاتلویث لایکرہ والا کرہ

فتاوی عالمگیری (1/110)میں ہے:

الخياط إذا كان ‌يخيط ‌في ‌المسجد ‌يكره إلا إذا جلس لدفع الصبيان وصيانة المسجد فحينئذ لا بأس به، وكذا الكاتب إذا كان يكتب بأجر ‌يكره وبغير أجر لا، وأما المعلم الذي يعلم الصبيان بأجر إذا جلس في المسجد يعلم الصبيان لضرورة الحر أو غيره لا ‌يكره وفي نسخة القاضي الإمام وفي إقرار العيون جعل مسألة المعلم كمسألة الكاتب والخياط. كذا في الخلاصة

الاشباه مع شرحہ للحموی(2/520)میں ہے:

وتكره الصناعة فيه من خياطة وكتابة بأجر وتعليم صبيان بأجر لا بغيره إلا لحفظ المسجد في رواية

قوله: وتكره الصناعة فيه من خياطة وكتابة بأجر إلخ. وفي الفتح: معلم الصبيان القرآن كالكاتب إن بأجر لا يجوز وحسبة لا بأس به (انتهى) . وفي شرح الجامع الصغير للتمرتاشي: ولا يجوز تعليم الصبيان القرآن في المسجد للمروي «جنبوا مجانينكم وصبيانكم مساجدكم» انتهى وهو صريح في عدم الجواز سواء كان بأجر أو لاقوله: إلا لحفظ المسجد أي: إلا إذا كانت الصناعة فيه لأجل حفظ المسجد لا للتكسب فإن الأمور بمقاصدها.

کفایت المفتی (4/54)میں ہے:

صحن مسجد  اور چبوترہ مسجد میں اسکول یا مدرسہ اسلامیہ قائم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ نماز پڑھنےکے علاوہ کوئی کام وہاں کرنا جائز نہیں ہے،جو لوگ اسکول وہاں رکھنےپر مصر ہیں وہ گناہ گار ہیں۔ان کو لازم ہے کہ وہ اسکول دوسرے مکان میں منتقل کردیں۔

فتاوی محمودیہ (23/182)میں ہے:

سوال:۔ مسجدمیں اردو ،ہندی، انگریزی اخبار یاسرکاری اسکولوں کے کورس کی کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں یانہیں ؟

الجواب حامداًومصلیاً:غیر دینی تعلیم دینے کا بھی وہاں حق نہیں ہے ۔

خیر الفتاوی (2/753) میں ہے:

چند وجوہ سے مسجد میں اردو تعلیم دینا درست نہیں ……………. 2۔مسجد نماز،تلاوت اور ذکراللہ  کے لیے ہے،دنیوی تعلیم کیلیے نہیں ۔

جواہر الفقہ (3/112)میں ہے:

بچوں کو قرآن شریف وغیرہ اجرت لے کر مسجد میں  پڑھانا باتفاق  ناجائز ہےاور بلااجرت محض ثواب کیلیے بعض فقہاء نے اجازت دی ہے۔(کذا فی الاشباہ)لیکن بعض فقہاء اس کو بھی جائز نہیں سمجھتے کیونکہ بحکم حدیث مسجد میں بچوں کا داخل کرنا ہی ناجائز ہے(کذا فی حاشیۃ الاشباہ عن التمرتاشی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved