• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میت کے سر اور پاؤں کی طرف کھڑے ہوکر سورۃ البقرۃ کا اول وآخری رکوع پڑھنا کس درجے کی احادیث سے ثابت ہے؟

استفتاء

میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے سر اور پاؤں کی طرف کھڑے ہوکر جو قرآن کریم کا بعض حصہ تلاوت  کیا جاتاہے جس کو تلقین کہتے ہیں۔ یہ تلقین کس درجے کی  احادیث سے ثابت ہے؟ ہمارے علاقے میں بعض علماء جن کا تعلق پنج پیر سے ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے اس لئے مستحب عمل ہے اور اس پر ہر وقت عمل نہ کرو ورنہ یہ بدعت بن جائے گا۔اور دیگر علماء کہتے ہیں کہ یہ اچھا عمل ہے کرنا  چاہیے۔ رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۔میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے سر اور پاؤں کی طرف کھڑے ہوکر سورۃ  البقرہ کا  اول وآخر   پڑھنے کی حدیث ضعیف نہیں ہے بلکہ یہ حدیث  حسن درجے کی ہے ۔

2۔ مستحب عمل دوام اختیار کرنے کی وجہ سے بدعت نہیں  بنتابلکہ اصرار یا التزام کی وجہ سے بدعت بنتا ہے۔ اصرار کا مطلب یہ ہے کہ مستحب کے ترک کرنے پر ملامت و شناعت کرنا ۔ لہذا جس مستحب پر اصرار کے درجے میں دوام ہو  وہ  بدعت ہے اور التزام  کا مطلب ہے مستحب کو ضروری اور لازمی سمجھنا خواہ اس پر دوام کرے یا نہ کرے لہذا جب کسی مستحب کو  لازم اور ضروری سمجھا جانے لگے تو وہ بھی بدعت ہے اور جہاں نہ اصرار ہو اور نہ التزام ہو تو وہاں کوئی مستحب  محض دوام سے بدعت نہ بنے گا بلکہ ایسی صورت میں مستحب پر دوام خود  مطلوب ہوگا۔

1۔السنن الکبریٰ للبیہقی (4/93) میں ہے:

عن عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، أنه قال لبنيه: ” إذا أدخلتموني قبري فضعوني في اللحد وقولوا: باسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم , وسنوا علي التراب سنا واقرءوا عند رأسي ‌أول ‌البقرة وخاتمتها فإني رأيت ابن عمر يستحب ذلك.

الأذكار للنووی (ص289) میں ہے:

«وروينا في “‌سنن ‌البيهقي” ‌بإسناد ‌حسن، أن ابن عمر استحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها

الفتوحات الربانیۃ (4/ 194) میں ہے:

«قوله: (‌وروينا ‌في ‌سنن ‌البيهقي) قال الحافظ بعد تخريجه بسنده إلى البيهقي هذا موقوف حسن

المعجم الكبير للطبرانی (19/ 220) میں ہے:

عن عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، قال: قال لي أبي: ” يا بني إذا أنا مت فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن علي الثرى سنا، ثم اقرأ عند رأسي ‌بفاتحة ‌البقرة وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك»

مجمع الزوائد (3/124) میں ہے:

رواه الطبرانى فى الكبير ورجاله مؤثقون

شامی (3/179) میں ہے:

فقد ثبت انه عليه الصلوة والسلام قرأ اول سورة البقرة عند رأس ميت وآخرها عند رجليه.

امداد الفتاویٰ (5/321) میں ہے:

“اصرار اور دوام میں  ………….فرق یہ ہے کہ اگر ترك  پر ملامت و شناعت ہو تو یہ اصرار  ہے ورنہ  دوام  مشروع”

نیز امداد الفتاویٰ (5/313) میں ہے:

“دوام  کو منع نہیں کیا جاتا بلکہ  التزام اعتقادی یا عملی کو منع کیا جاتا ہے  التزام اعتقادی یہ ہے کہ اس کو ضروری سمجھے اور التزام عملی یہ ہے کہ اس کے ترک  پر ملامت کریں”

فتاوی محمود یہ (3/51) میں ہے:

مستحب پر مداومت  موجب کراہت نہیں بلکہ اصرار موجب کراہت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved