- فتوی نمبر: 14-183
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عزیزودوستو! یہ کمیٹی ایسے کاروباری اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے ایک پیشکش ہے جو کہ اپنی کار ،گاڑی رکھنے کے خواہشمند ہیں اور ان کےپاس آج کے مہنگائی کے دور میں کار خریدنے کے لیے یکمشت رقم موجود نہیں ہے یا جو احباب بینک کے سودی نظام سے بچنا چاہتے ہیں ایسے دوست احباب کے لیےسستی کار سکیم چلائی جارہی ہے ۔اس میں کوئی ایڈوانس ادائیگی نہیں ہے البتہ اس میں کار کی اصل قیمت سے کچھ زائد رقم مقرر کی گئی ہے جو کہ سکیم ہولڈرز کے اخراجات اور مناسب منافع کی مد میں جمع ہو گی۔یہ سکیم تیس مہینے چلے گی۔
(۱)اس میں تیس ممبر ہوں گے(۲)ہر ممبر یومیہ بارہ سو روپے یا ماہانہ مبلغ چھتیس ہزار روپے ادا کرے گا(۳)ہر ماہ قرعہ اندازی کی جائے گی قرعہ میں نام نکلنے والے ممبر کو نئی مہران کار دی جائے گی(۴)گاڑی کی رجسٹریشن کاخرچہ ممبر خود ادا کرے گا ۔گاڑی کی رجسٹریشن اس ممبر کے نام پرہو گی البتہ کمیٹی(قسطوں )کی رقم مکمل ہونے تک گاڑی کی فائل امانتارکھی جائے گی ۔اس کے علاوہ احتیاطا معقول ضمانت بھی لی جائے گی۔(۵)جو ممبر کسی مجبوری کی صورت میں کمیٹی کی میعاد سے پہلے کمیٹی سے اپنا نام ختم کروانا چاہے تو اس کی ادا شدہ پوری رقم بالترتیب قسطوں میں واپس ادا کی جائے گی۔(۶)کوئی ممبر گاڑی حاصل کرنے کے بعد تین ماہ تک قسط کی رقم ادا نہ کرے تو اس کی گاڑی روک دی جائے گی اور مارکیٹ ریٹ پر گاڑی فروخت کرکے اقساط کی رقم منہا کرنے کے بعد زائد رقم مالک کو ادا کی جائے گی۔(۷)اس کمیٹی میں کسی کو قرعہ اندازی کے بغیر ایڈوانس کی صورت میں گاڑی نہیں دی جائے گی اور گاڑی کے لیے رجسٹریشن کے اخراجات کے علاوہ کوئی اضافی رقم ،مٹھائی وغیرہ نہیں لی جائے گی۔
وضاحت مطلوب ہے :
کار کی حقیقی قیمت سے زائد کتنی رقم لی جائے گی اور کس جگہ خرچ کی جائے گی ۔تفصیل سے بیان کریں
جواب واضاحت:
اس وقت کار کی قیمت آٹھ لاکھ چالیس ہزار روپے ہے مستقبل میں گاڑی کی قیمت میں حکومت وقت کی پالیسی کے مطابق اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔جبکہ فی ممبر سے دس لاکھ اسی ہزار روپے ماہانہ قسطوں میں وصول کئے جائیں گے رقم روزانہ کی بنیاد پر وصول کرنے کے لئے ایک آدمی مقرر ہوگا جس کو ماہانہ بیس ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی رقم وصولی کے لئے رسید بک اور کارڈ پرنٹ ہوگا ہر ماہ قرعہ اندازی کے لئے جمع ہونے والے افراد کے لئے وقت اور موسم کے لحاظ سے اکرام ہوگا ان اخراجات کی مد میں گاڑی کی قیمت سے دو لاکھ چالیس ہزار روپے زائد وصول ہوں گے اس رقم سے بالا اخراجات نکال کر باقی رقم کمیٹی چلانے والے ذمہ دار کا نفع ہوگا جو تقریباََ ایک لاکھ پچاس ہزار کم یا زیادہ بنتے ہیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ سکیم جائز نہیں، کیونکہ شریعت کی روسے مذکورہ سکیم کی حقیقت کمیٹی کے ممبران اور سکیم ہولڈرز کے درمیان مہران کار کی ادھار خرید وفروخت کی ہے اور شرعا ادھار خریدو فروخت کےجائزہونے کے لیے ضروری ہے کہ خریدوفروخت کے وقت مبیع(جس چیز کو خریدا جارہا ہے) متعین ہوتاکہ بیع الکالی بالکالی (ادھار کی ادھار سے بیع)لازم نہ آئے جبکہ مذکورہ صورت میں خریدو فروخت کے وقت گاڑی متعین نہیں ہوتی اور نہ ہی تو کل قیمت پر قبضہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے مذکورہ صورت بیع الکالی بالکالی کی بن جاتی ہے۔اس سکیم کو بیع سلم بھی نہیں بناسکتے کیونکہ بیع سلم میں مسلم فیہ یعنی مبیع(جس چیز کو خریدا جارہا ہے) کے حوالے کرنے کا وقت متعین ہونا ضروری ہے اورسودےکی مجلس میں کل قیمت پر قبضہ بھی ضروری ہے جبکہ مذکورہ صورت میں مبیع حوالے کرنے کا وقت بھی مقرر نہیں ہے بلکہ ہر مہینے قرعہ اندا زی میں کارنام نکلنے والے کو ملے گی اور سودے کی مجلس میں کل قیمت پر قبضہ بھی نہیں ہے کیونکہ قیمت قسطوں میں ادا کی جائے گی۔یہ معاملہ استصناع بھی نہیں بن سکتا کیونکہ نہ تو کمیٹی کا ذمہ دار صانع ہے اور نہ لوگوں کا مقصود عمل پر بنوانا ہے۔اور اگر ادا شدہ قسطوں کو امانت سمجھیں تو کمیٹی کے ممبران کی اجازت کے بغیر سکیم ہولڈرز کے لیے ان کو استعمال کرنا جائز نہیں اور اگر کمیٹی ممبران کی طرف سے استعمال کی دلالۃ اجازت سمجھی جائے تو یہ قسطیں سکیم ہولڈرز کے ذ مے قرض بن جائیں گی۔ قرض کے ساتھ بیع مشروط یا معروف ہو تو یہ بھی جائز نہیں۔
شرح المجلة400/2
اذا قال شخص لاحد من اهل الصنائع اصنع لی الشئی الفلانی بکذا قرشا وقبل الصانع ذلک انعقد البیع استحسانا
وقال الاتاسی تحته: والصحیح هو القول الاخیر لاالاستصناع طلب الصنع فمالم یشترط فیه العمل لایکون استصناعا۔
مجلة الاحکام:ماده386
یشترط لصحة السلم بیان جنس المبیع ۔۔۔۔وبیان مقدار الثمن والمبیع وزمان تسلیمه ومکانه ۔
وایضا فیه:387
یشترط لصحة بقاء السلم تسلیم الثمن فی مجلس العقد فاذا تفرق العاقد ان قبل تسلیم راس مال السلم انفسخ العقد ۔
وفی الدر مع الشامی:55/7
وصح بثمن حال ومؤجل الی معلوم ۔۔۔۔۔بخلاف جنسه ولم یجمعهما قدر لما فیه من ربا النساء ۔قوله(لما فیه من ربا النساء)قلت: بقی شرط آخر وهو ان لایکون المبیع الکیلی او الوزنی هالکا فقد ذکر الخیر الرملی اول البیوع عن جواهر الفتاوی له علی آخر حنطة غیر السلم فباعها منه بثمن معلوم الی شهر لایجوز لانه بیع الکالی بالکالی وقد نهینا عنه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved