- فتوی نمبر: 13-100
- تاریخ: 21 مارچ 2019
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ حضرات سے ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا۔ آجکل کیوں کہ فتنوں کا دور ہے۔ کہیں جگہ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگ محفلوں غصے میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے کوئی کفریہ جملہ ادا کر جاتے ہیں ۔ تو اس بات سے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں یا نہیں ؟اور اگر خارج ہو جاتے ہیں تو کلمہ پڑھنے سے واپس اسلام میں آ جائیں گے؟اور اگر شادی شدہ ہیں تو کیا نکاح کے بارے میں کیا حکم ہو گا ؟ کیا تجدید نکاح کرنا پڑے گا یا استغفار سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟
وضاحت مطلوب ہے:
۱۔کفریہ جملے کی وضاحت مطلوب ہے اورسارا واقعہ بھیجیں
۲۔ بچہ بالغ ہے یا نابالغ؟
جواب وضاحت:
۱۔ ایک لڑکا حافظ ہے۔ کام کی مصروفیت اور طبیعت کے میلان کی وجہ سے قرآن پڑھنے میں سستی کرتا ہے۔اسکی والدہ اسکو بار بار کہتی رہتی ہے۔ ہاں اس کہنے میں اسکی والدہ غصے،طنز ،تانے سے بات کرتی ہے، بچے کی طبیعت میں غصہ بھی ہے۔ بچہ نمازی ہے ایک دن اس پر بحث ہوئی تو بچے نے غصے میں والدہ سے جان چھڑانے کے لیے غصے میں والدہ کو کہا میں مسلمان نہیں ہوں ۔اب اس بارے میں آپ حضرات کی رائے کیا ہے۔
۲۔ شادی شدہ ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں والدہ سے جان چھڑانے کے لیے غصے میں لڑکے کا یہ کہنا کہ’’میں مسلمان نہیں ہوں ‘‘اگرچہ بڑے گناہ کی بات ہے حتی کہ بعض حضرات نے ایسا کہنے والے کی تکفیر کی ہے تاہم ایسے جملوں میں یہ بھی احتمال ہے کہ کہنے والے کی مراد یہ ہو کہ اس کے کام مسلمانوں والے نہیں اور احتمال کے ہوتے ہوئے کسی پر کفر کا حکم لگانا درست نہیں لہذا مذکورہ صورت میں یہ لڑکا دائرہ اسلام سے خارج نہ ہو گا اور نہ ہی تجدید ایمان وتجدید نکاح کی ضرورت ہے البتہ سابقہ سے استغفار اور آئندہ کے لیے احتیاط ضروری ہے۔
چنانچہ فتاوی بزازیہ علی ھامش الھندیۃ(330/6)میں ہے:
ضرب عبده او ولده کثيرا فقيل له الست بمسلم فقال لا قيل يکفر اذا قال عمدا وان قال غلطا لا يکفر ولو قال هب اني لست بمسلم لا يکفر وقيل في قوله لست بمسلم لايکفر ايضا قياسا علي هذا لان معناه عند الناس افعاله ليس بافعال اهل الاسلام
© Copyright 2024, All Rights Reserved