• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میاں بیوی کے بیان میں اختلاف

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہو جس کے بعد ہم نے کمرے الگ کر لیے (اس طرح کے جھگڑے پچھلے 30 سال میں متعدد بار ہو چکے ہیں جن کے آخر میں مفاہمت ہو جاتی ہے)۔ اس مرتبہ کم و بیش تین دن کے بعد ہمارے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے طلاق دو۔ میری بیوی کے مطابق میں نے جواب میں کہا کہ  ’’تم تو پہلے سے ہی طلاقی ہو‘‘۔ میری بیوی نے ایک مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھا کہ مجھے میرے خاوند نے ایسے کہا تھا اور جھگڑے کی پوری مذکورہ صورت حال بتائی۔ ان مولوی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ایسے کہا تھا تو میں نے جواب میں جواب میں کہا مجھے واضح طور پر اپنے الفاظ یاد نہیں ہیں لیکن جب میری بیوی نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا تو میں نے اس طرح کا جواب دیا تھا کہ ’’تم تو پہلے ہی طلاقن کی طرح ہو‘‘ جس کا مفہوم/ مقصد یہ تھا کہ جیسے طلاق شدہ جوڑے علیحدہ علیحدہ رہتے ہیں تو ہم تو پچھلے تین دن سے ایسے ہی رہ رہے ہیں۔ میری طلاق دینے کی نیت ہرگز نہ تھی۔ میرا بیٹا بھی اس مجلس میں موجود تھا بعد میں اس سے بھی پوچھا گیا تو اس نے بھی طلاق کے حوالے سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوئی ہے تو کونسی اور کتنی ہوئی ہے اور میرے لیے آگے لائحہ عمل کیا ہے؟

تنقیح: میاں بیوی کو اپنے کہے اور سنے ہوئے الفاظ پر یقین ہے؟ کیا وہ اس پر حلف دینے کی کیفیت میں ہیں؟

بیوی: میرا حافظہ خاوند کے مقابلے میں کمزور ہے، سابقہ تجربات سے یہ بات واضح ہے کہ خاوند کو الفاظ زیادہ اچھی طرح یاد رہتے ہیں اس لیے اگرچہ میرا غالب رجحان یہی ہے جو سوال میں ذکر کیا مگر میں اس پر حلف نہیں دے سکتی اور یہ احتمال ہے کہ شاید وہی الفاظ کہے ہوں جو خاوند کہہ رہے ہیں۔

خاوند: میری چونکہ نیت یہی تھی جو الفاظ میں لکھی ہے اس لیے میرا غالب رجحان یہ ہے کہ میں نے وہ الفاظ کہے تھے جو اوپر سوال میں لکھے ہیں۔ البتہ کمزور احتمال بیوی کے بیان کردہ الفاظ کا بھی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے۔ عدت گذرنے سے قبل رجوع کی گنجائش ہے۔ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی رہ جائے گا۔ فتاویٰ شامی (4/462) میں ہے:

ومنه: أي من الصريح: يا طالق أو يا مطلقة بالتشديد، ولو قال أردت الشتم لم يصدق قضاء ودين. خلاصة: ولو كان لها زوج طلقها قبل فقال أردت ذلك الطلاق صدق ديانة باتفاق الروايات، وقضاء في رواية أبي سليمان، وهو حسن كام في الفتح، وهو الصحيح كما في الخانية. ولو لم يكن لها زوج لا يصدق، وكذا لو كان لها زوج قد مات.

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (4/463) ہے:

المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه…….. فقط و الله تعالى أعلم([1])

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ عورت الگ الفاظ کی دعویدار ہے جبکہ خاوند اس سے مختلف الفاظ کا دعویٰ کرتا ہے، دونوں کو اپنی بات پر اگرچہ مکمل یقین  نہیں مگر ظن غالب ضرور ہے۔ اور شرعی احکام کا مدار ظن غالب پر ہی ہوتا ہے۔

2۔ خاوند کے ذکر کردہ الفاظ طلاق کے لیے واضح نہیں ہیں طلاق کا احتمال بھی رکھتے ہیں اور غیر طلاق کا بھی اور خاوند طلاق کی مراد نہ ہونے کا مدعی ہے جبکہ عورت کے ذکر کردہ الفاظ زیر نظر صورت میں طلاق کے لیے حتمی ہیں۔

3۔ طلاق کے معاملے میں عورت اپنے علم کے مطابق سمجھنے اور عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔

ان باتوں کے پیش نظر مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے۔ عدت گذرنے سے قبل رجوع کی گنجائش ہے۔ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی رہ جائے گا۔ فتاویٰ شامی (4/462) میں ہے:

ومنه: أي من الصريح: يا طالق أو يا مطلقة بالتشديد، ولو قال أردت الشتم لم يصدق قضاء ودين. خلاصة: ولو كان لها زوج طلقها قبل فقال أردت ذلك الطلاق صدق ديانة باتفاق الروايات، وقضاء في رواية أبي سليمان، وهو حسن كام في الفتح، وهو الصحيح كما في الخانية. ولو لم يكن لها زوج لا يصدق، وكذا لو كان لها زوج قد مات.

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (4/463) ہے:

المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه…….. فقط و الله تعالى أعلم

حضرت ڈاکٹر صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی تعلیق:

            ’’تم طلاقن کی طرح ہو‘‘ یہ الفاظ بھی وقوع طلاق پردلالت کرتے ہیں۔ ’’تم تو پہلے ہی طلاقن کی طرح ہو‘‘ شوہر کے الفاظ بھی وقوع طلاق پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ طلاقن کی طرح وہی ہوتی ہے جو خود بھی طلاقن ہو۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved