- فتوی نمبر: 6-374
- تاریخ: 21 جون 2014
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
میرا نام *** ہے، 2001ء میں میری شادی*** سے ہوئی جو کہ 9 سال قائم رہی اور 2010ء میں حاسدوں کی نظر ہو گئی، اس دوران ہمارے تین بچے ہوئے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔ میرے شوہر اکلوتے بیٹے ہیں اور ان کی تین بہنیں ہیں، شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی سے مجھے طلاق دلوانے کے لیے انہوں نے اپنے بھائی پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور اس کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔
2005ء میں میری ساس میرے سسر سے علیحدہ ہو گئیں اور ڈیفنس میں اپنی شادی شدہ بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر ہوئیں، واضح رہے کہ یہ گھر میرے شوہر کا تھا۔ علیحدگی کے بعد سے انہوں نے میرے چاہنے کے باوجود بھی مجھ سے ملنے جلنے سے انکار کر دیا اور اسی اثنا میں خفیہ طور پر میرے شوہر کی دوسری شادی کروا دی۔ جب یہ عقدہ کھلا تو مجھے سخت ٹھیس پہنچی، لیکن اپنے بچوں کی خاطر اور اپنے شوہر سے محبت کی وجہ سے میں نے گذارہ کرنے کی ٹھان لی، نازک حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری نند نے میرے گھر آ کر لڑائی جھگڑا کیا، میرے شوہر کی غیر موجودگی میں مجھے بہت مارا پیٹا اور میری والدہ کو گھر بلوا کر ان کی بھی بہت بے عزتی کی، اس موقع پر وہ مجھے کھڑے کھڑے طلاق دلوانے کے لیے اپنے بھائی پر زور دیتی رہیں۔
میری بُری حالت اور گھر کے حالات دیکھتے ہوئے میرے شوہر نے مجھے میری ماں کے ساتھ بھیج دیا۔ میری عدم موجودگی میں میرے شوہر کو خوب بھڑکا کر انہوں نے مجھے ایک تحریری طلاق دلوا دی۔ عدت گذر گئی اور وہ طلاق بائن ہو گئی۔ کچھ ہی مہینوں بعد جب بچوں کے سلسلے میں میرا رابطہ اپنے شوہر سے ہوا تو پتہ چلا کہ وہ بھی میری طرح بہت پشیمان اور ہماری واپسی کی کوئی صورت چاہتے تھے، تین سال کی کوششوں کے بعد بالآخر کچھ مہینوں قبل انہوں نے میری اور بچوں کی رہائش کا بندوبست اپنی والدہ کے ساتھ کر دیا۔ ہم دونوں نے مل کر انہیں رضا مند کرنے کی کوشش کی، کہ وہ ہمیں دوبارہ نکاح کی اجازت دے دیں، لیکن وہ اس پر راضی نہیں، دوسری طرف بہنیں بھی اپنےبھائی سے اپنا مکمل وراثتی حق لینے کے فوراً بعد قطع تعلق کر بیٹھی ہیں کہ میرے ساتھ تعلق جوڑنے کی صورت میں وہ اپنے بھائی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گی، انہوں نے اپنی والدہ کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا ہے وہ بھی قطع تعلق کر کے علیحدہ گھر میں رہنے کا مطالبہ کر رہی ہیں یعنی نہ میرے ساتھ اور نہ ہی اپنی دوسری بہو کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔
میرے شوہر اس صورتِ حال میں پریشان ہیں وہ میرے ساتھ نکاح کے خواہشمند ہیں، لیکن ماں بہنوں کے مسلسل دباؤ میں ہیں جو کہ مستقل طور پر ہمارے درمیان بدگمانیاں پیدا کر رہی ہیں، ان لوگوں کا مؤقف یہ ہے کہ میں اپنے شوہر کے لیے نا مناسب ہوں اور دوسری شادی ہو جانے کے بعد انہیں مجھ سے دوبارہ نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ برائے مہربانی قرآن کی روشنی میں درج ذیل سوالوں کے جوابات مرحمت فرمائیں۔
1۔ میری ساس اور نندوں کا یہ طرز عمل یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی و جدائی کروانا درست ہے؟
2۔ میرے اور میرے شوہر کے دوبارہ نکاح کی راہ میں رکاوٹ بننے پر قرآن و سنت کیا کہتی ہے؟
3۔ میرے ساتھ تعلق جوڑنے پر کیا میرے شوہر والدہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے جبکہ ہمارے نکاح میں تاخیر کی وجہ صرف ان کی رضا مندی حاصل کرنا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ آپ کی ساس اور نندوں کا یہ طرز عمل درست نہیں۔
2۔ میاں بیوی اگر دوبارہ نکاح پر آمادہ ہوں اور شرعی اعتبار سے دونوں کے نکاح کی گنجائش بھی ہو تو ان کے درمیان رکاوٹ ڈالنا جائز نہیں۔ قرآن پاک میں ہے:
و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلهن فلا تعضلوهن ان ینكحن ازواجهن اذا تراضوا بينهم بالمعروف.
ترجمہ: اور جب طلاق دی تم نے عورت کو پھر پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو اب نہ روکو ان کو اس سے کہ نکاح کر لیں اپنے انہیں خاوندوں سے جب کہ راضی ہو جائیں آپس میں بھلے طریقے سے۔ (بقرہ: 232)
3۔ آپ کے شوہر نا فرمانی کے مرتکب نہیں ہوں گے کیونکہ بلا وجہ طلاق دینا ظلم تھا، اس ظلم کو برقرار رکھنے یعنی دوبارہ نکاح سے روکنے کا مطالبہ ایک نا جائز مطالبہ ہے جس کو پورا کرنا بیٹے کے ذمے شرعاً ضروری نہیں اور اس کے خلاف کرنا نافرمانی نہیں۔
جب ساس کے ساتھ بہو کی نہیں نبھ رہی تو مرد کو چاہیے کہ بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھے اور بیوی کے مسئلے میں ماں بہنوں کی بات سن لے اور حکمت سے کام لے، ان کی بات پر بیوی کے خلاف نہ ہو جائے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved