• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میاں بیوی میں طلاق کا اختلاف

استفتاء

شوہر کا بیان

محترم میرا ایک شرعی مسئلہ ہے کہ چند گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو اگست 2014ء میں ایک بار موبائل پر طلاق کے الفاظ کہے، بعد میں ہماری صلح ہو گئی تھی، پھر تقریباً چھ ماہ بعد موبائل پر ہی ایک بار کہا "میں تجھ کو طلاق دیتا ہوں، اور تو مجھ پر حرام ہے”۔ تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی۔ مجھے فون پر میرے والد صاحب نے گھر آنے کو کہا، میں لاہور سے آبائی گاؤں مظفر گڑھ چلا گیا، وہاں گھر میں میری بیوی، میرا سسر اور دو میرے سالے، میرا ابو، دو بھائی اور چچا کی موجودگی میں آمنے سامنے بات ہوئی، تو اس وقت خاموش تھی، فیصلہ ہوا کہ یہ (بیوی) جھوٹی ہے، لہذا اسے میرے ساتھ میرے گھر بھیج دیا۔ بعد میں عید الاضحیٰ پر جب چھٹی پر گیا تو میرے ساتھ میری بیوی کا بول چال درست نہ تھا، میں نے واپسی پر آتے ہوئے اسے کہا کہ تیرا رویہ میرے ساتھ اچھا نہ ہے، لہذا میں تب گھر آؤں گا جب تو درست ہو جائے گی۔

اب جبکہ وہ کہتی ہے کہ ایک اگست 2014ء کو طلاق کا لفظ کہا، اور دوسرا فروری 2015ء کو 2 مرتبہ کہے، اور "تو حرام ہے” کے الفاظ بھی کہے۔ محترم جہاں تک مجھے یاد ہے، جب میں نے یہ الفاظ کہے غصے میں تھا، پریشان تھا، ایک مرتبہ طلاق اور "تو حرام ہے” کے الفاظ کہے فروری 2015ء میں۔ ہمارا جھگڑا اس بات پر ہوتا تھا کہ تم اپنی بہن کے گھر مت جاؤ، کیونکہ اس کی بہن کا دیور میری بیوی سے فون پر باتیں کرتا تھا، اس لیے اور ایک مرتبہ موبائل پر ایس ایم ایس کر رہے تھے، میں پہنچ گیا، تو جب سامنے فیصلہ ہوا کہ میری بیوی نے کہا کہ تم نے مجھے تین مرتبہ الفاظ طلاق کے کہے جب میں نے کہا کہ ایک دفعہ پہلے کہا جس کے بعد ہماری صلح ہو گئی، اور ایک مرتبہ بعد میں کہا اور حرام کہا، تو وہ خاموش ہو گئی اور کچھ نہ بولی۔

میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ یہ جو لکھا ہے درست ہے۔

بیوی کا حلفیہ بیان

محترم مفتی صاحب السلام علیکم: جب پہلی بار لڑائی ہوئی تھی، تو انہوں(شوہر) نے مجھے ایک بار طلاق کا کہا، پھر کہا کہ "تو مجھ سے آزاد ہے، تو حرام ہے مجھ پر، تو حرام ہے مجھ پر، میرے گھر جانے کی ضرورت نہیں، نکل جا میرے گھر سے”۔ اس کے بعد صلح ہو گئی۔ پھر دو ڈھائی ماہ بعد لڑائی کی، پھر دوبار کہا  کہ "میں طلاق دیتا ہوں، کہوں تیسری بار، کہوں تیسری بار، تو مجھ پر حرام ہے، تو مجھ پر حرام ہے، نکل جا میرے گھر سے”۔ اور اس بات کی گواہ میری بیٹی اور اللہ کی ذات ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: (1) لڑکی کے بیان میں ہے کہ "اس کے بعد صلح ہو گئی”، اس صلح سے کیا مراد ہے؟ تجدید نکاح مراد ہے؟ یا خالی رجوع مراد ہے۔ (2) "پھر دو ماہ بعد لڑائی کی” اور دو بار کہا "میں طلاق دیتا ہوں”، کیا  "میں طلاق دیتا ہوں” کا لفظ دو بار کہا تھا؟ (3) نیز پہلی مرتبہ طلاق کے بعد جو دو، ڈھائی ماہ بعد طلاق دی، تو کیا اتنے عرصے میں تین ماہواریاں گذر چکی تھیں یا نہیں؟

جواب وضاحت: (1) خالی رجوع مراد ہے۔ (2) جی ہاں "میں طلاق دیتا ہوں” کا لفظ دو بار کہا تھا۔ (3) تین ماہواریاں نہیں گذری تھیں۔

تردید بیان از شوہر

میری بیوی نے آخر میں جو تحریر کیا کہ اس بات کی گواہ میری بیٹی اور اللہ پاک کی ذات ہے، لیکن جب موبائل فون پر طلاق کے الفاظ کہے تھے، اس وقت وہ بھی اکیلی تھی اور میں بھی تن تنہا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان اللہ پاک کی ذات گواہ موجود تھی اور ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: (1) پہلی دفعہ فون پر کیا الفاظ کہے تھے؟ (2) صلح سے رجوع مراد ہے یا تجدید نکاح؟

جواب وضاحب: (1) الفاظ یہ تھے کہ "میں تجھے طلاق دیتا ہوں، تو مجھ پر حرام ہے”۔ (2) رجوع مراد ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں لڑکی کے بیان کے مطابق تین طلاقیں ہو گئی ہیں۔ لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔

توجیہ: (1) لڑکی کے بیان کے مطابق لڑکی کے حق میں ایک بائنہ طلاق ان الفاظ سے ہوئی "شوہر نے مجھے ایک بار طلاق کا کہا، پھر کہا تو مجھ سے آزاد ہے، تو حرام ہے مجھ پر، تو حرام ہے مجھ پر، میرے گھر جانے کی ضرورت نہیں، نکل جا میرے گھر سے”۔

(2)  اور دو بائنہ طلاقیں ان الفاظ سے ہوئیں "پھر دو، ڈھائی ماہ بعد لڑائی کی، پھر دو بار کہا میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتا ہوں، کہوں تیسری بار، کہوں تیسری بار، تو مجھ پر حرام ہے، تو مجھ پر حرام ہے، نکل جا میرے گھر سے”۔ یہ الفاظ چونکہ لڑکی کے بیان کے مطابق  پہلی طلاق کی عدت کے دوران کہے ہیں، اس لیے ان الفاظ سے دو طلاقیں ہوئیں۔ اور کل ملا کر تین طلاقیں ہوئیں ۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved