- فتوی نمبر: 28-132
- تاریخ: 06 مارچ 2023
استفتاء
ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ ہمیں ا یک بھائی نے ایک جریب زمین مسجد اور مدرسہ کے لئے وقف کردی اوراس پر مسجد اور مدرسہ کے کچھ کمرے بنائے گئے اب وہ واقف اس وقف زمین میں اپنی باقی زمین کی طرف جو اس وقف زمین کی بیک سائڈ پر ہے راستہ مانگ رہاہے کیونکہ اس کی ساری زمین کا فرنٹ اس وقف والی زمین میں آگیا ہےجس کی وجہ سےپیچھےوالی زمین کےلئے کوئی راستہ نہیں بچا۔اوروہ اس کا عوض بھی ڈبل دے رہاہےجو وقف زمین کو چوکور بنانے کے لئے ضروری بھی ہےکہ اس میں کمرے سیدھے آجائیں گے اور یہ راستہ اس پتلی گلی میں مانگ رہاہے جو چاردیواری اور مسجد کی دیوار کے مابین رہ گئی ہے۔تو کیا اس کودینا اور اس کاڈبل عوض لینا از روئے شریعت جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں موقوفہ زمین کو بدلنا جائز نہیں ہے۔
توجیہ:واقف نے اس کو مسجد اور مدرسہ کے لیے وقف کیاہے اور وقف کرنے کے بعد واقف کا اس موقوفہ زمین میں ملکیت باقی نہیں رہتی کیونکہ وقف کرنے کے بعدنہ واقف کی ملکیت میں رہتی ہے اور نہ کسی اور کی تملیک کو قبول کرتی ہےتو اس وجہ سے مذکورہ صورت کوبدلناجائز نہیں ہے۔
درمختار مع ردالمحتار(6/546)میں ہے:
فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه.
ہندیہ (2/362)میں ہے:
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز
حاشیہ ابن عابدین(4/433)میں ہے:
شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به
ہندیہ (2/408)میں ہے:
من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقة ويأذن بالصلاة أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به وأما الصلاة فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى هكذا في البحر الرائق التسليم في المسجد أن تصلی فيه جماعة بإذنه وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط أداء الصلاة فيه بالجماعة بإذنه اثنان فصاعدا كما قال محمد رحمه الله تعالى رواية الحسن كذا في فتاوى قاضي خان۔
حاشیہ ابن عابدین(6/589)میں ہے:
اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا
والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه
والثالث أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختا
امداد المفتین(2/627)میں ہے:
سوال : میرے دادا مرحوم نے اپنی حیات میں ایک مکان کا چھٹا حصہ بنام مسجدمستقل طور پر وقف کردیا تھا جس کی آمدنی کرایہ بارہ روپیہ ماہ وار ہےاور مسجد میں صرف ہوتی ہےبقیہ مکا بندہ کی رائش میں ہےہر دومکانات آپس میں ملحق بھی ہے بندہ کو بوجہ تنگی مکان کےسخت تکلیف گوارہب کرنی پڑتی ہےاگر مکان موقوف اس میں شامل ہوجائے توتکلیف مندرجہ سے راحت ہوسکتی ہے اس صورت مین بطور بیع چارآدمی جو قیمت واجب کہہ دیں تو بیع ہوسکتی ہے یانہیں یا استبدال کسی دوسرے کان سے جو مسجد کے لئے آمدنی میں باعث زیادتی ہواور مسجد کے لئے مفید ہو تو شرعا استبدال جائز ہے ہے یانہیں ؟
جواب:جب کہ مکان موقوفہ آباد اور قابل کرایہ ہے تو اس کا فروخت کرنا یادوسری سے بدلنا اگر چہ دوسری زمین نفع اورکرایہ میں اس سے زائد ہو جائز نہیں۔
مطلب في استبدال الوقف وشروطه قوله ( وجاز شرط الاستبدال به الخ ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا
والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه
والثالث أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار
فتاوی دارالعلوم دیوبند(13/355)میں ہے:
سوال:مسجد کی ایک جانب کو بڑھائی گئی ہے اور امام کے لئے محراب وسط میں بنائی گئی ہےاور پہلی محراب جو ایک جانب کورہ گئی ہے اس کے پیچھے ایک مکان ہے جس کا صحن بہت ہی تنگ ہے اس لئے مکان والا چاہتا ہے کہ محراب کی جگہ دیوار سیدھی کرنے کے بعد جو بچے اس کو مل جائے اب اہل محلہ وہ جگہ اس کو مفت یابہ قیمت دے سکتے ہیں یا نہیں ؟جبکہ مسجد میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔
جواب:اس جگہ کا کسی کو مفت یا بہ قیمت کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved