- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: عقائد و نظریات > دعوت، تبلیغ، تصوف اور احسان
استفتاء
(۱) تبلیغی جماعت کے عالمی مبلغ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب ضلع خانیوال کے قصبہ تلمبہ کے رہائشی ہیں ۔ وہ اپنے قصبہ اور اس کے گردو نواح میں میت کے تیسرے دن والے ختم پر اور رسمِ قل خوانی پر جا کر وعظ کرتے ہیں ۔مسلمانوں کی کثیر تعداد ان کا وعظ سننے کیلئے آتی ہے ۔ اور انکی کیسٹیں بھی دور دور تک پھیلتی ہیں اور ان کو لوگ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا عالم مانتے ہیں ۔ان کے ایسے وعظوں کے ذریعے فائدہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ تبلیغی جماعت کے قریب ہو کر دین سیکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک بہت بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ عام تبلیغی جماعت والے ،عام علماء،آئمہ مساجد ، واعظین ،طلباء اور عام مسلمان ان بدعات میں شامل ہونے کو اور ان میں جا کر وعظ سننے کو درست سمجھتے ہیں کوئی روکے تو اس کے ساتھ بڑی رنجش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کام صحیح ہے ہماری نیت اصلاحی ہوتی ہے اور مختلف دلائل دیتے ہیں ۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ خود حضور ﷺ نے میلوں وغیرہ میں جا کر تبلیغ فرمائی ہے ۔اور کئی بریلوی مسلک کے لوگ بھی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ادھر تم اس تیجہ۔قل خوانی وغیرہ کو غلط کہتے ہو اور ادھر تمہارے اتنے بڑے عالم نہ صرف اسمیں شامل ہوتے ہیں بلکہ وعظ بھی کرتے ہیں ۔حضرت جی کے ان بیانات کی وجہ سے عام مسلمان ان بدعات کو صحیح سمجھ رہے ہیں ۔کیونکہ عام مسلمان نہ تو مولانا صاحب کی نیت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے اصلاح امت والے جذبے کو سمجھتے ہیں ۔اور عام تبلیغی جماعت والے ان بدعات کو خود بھی کر رہے ہیں اور ان میں شامل بھی ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ امت کو دین کے قریب کرنے کیلئے یہ طریقہ بھی درست ہے ۔حضرت مولانا طارق جمیل صاحب بدعاتِ مروجہ کے وعظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رسمیں بدعات ہیں یہ طریقہ غلط ہے وغیرہ وغیرہ ۔لیکن اس سے ان بدعات کے تمام مفاسد اور ممنوع ہونے کی وجوہات مکمل طور پر واضح نہیں ہوتیں۔بلکہ ان کی شمولیت کی وجہ سے عام مسلمانوں کو مغالطہ لگ رہا ہے ۔تو پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح بدعاتِ مروجہ میں وعظ کرکے دین کی تبلیغ کرنا درست ہے کہ نہیں؟ اگر درست ہے تو ہم بھی شروع کر دیتے ہیں اور حضورﷺ کی کفار کی میلوں میں جاکر تبلیغ کرنے کی مثال کو ان بدعات میں جا کر تبلیغ کرنے پر قیاس کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
(۲) حضرت مولانا طارق جمیل صاحب والی مسجد میں میت کے تیسرے دن کے ختم اور قل خوانی کے بارے لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہوتا ہے کہ فلاں کا آج تیسر ےدن کا ختم ہے یا قل خوانی ہے اس میں شامل ہو کر ثوابِ دارین حاصل کریں ۔تو اس سے عام مسلمانوں کو جو مغالطہ لگ رہا ہے وہ آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں تو اس طرح یہ اعلان کرنا درست ہے یا نہیں ؟۔
مدلل مفصل جواب کیلئے عرض ہے تا کہ ہم حضرت مولانا طارق جمیل صاحب اور عام علمائ،طلبائ،اور اہلِ تبلیغ کو دکھا کر ان کو شرعی مسئلہ سے مطلع کر سکیں اور یہ بھی عرض ہے کہ کبھی اگر آپ کی مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات ہو تو آپ بھی ان کو اس بارے میں امت کے نقصان اور مغالطوں سے آگاہ کر دیں تاکہ مسلمان ان بدعات اور ان کی شمولیت سے بچ سکیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
وعظ و تبلیغ کی نیت سے بھی ایسے مواقع اور ایسی مجالس میں شرکت جو کہ دین کی رو سے بدعت ہیں صحیح نہیں ۔ ہم اگر وعظ و تبلیغ کے مکلف ہیں تو صرف اس طریقے سے جو شریعت کے موافق ہو اس طریقہ سے نہیں جو شریعت کے مخالف ہو ۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے دین بگڑتا ہے اور اس کی شکل بدلتی ہے ۔اس بات کو دو مثالوں سے سمجھئے:
(۱) حضرت علی ؓ کے دور میں ایک فرقہ خارجی کے نام سے نکلا۔یہ لوگ حضرت علیؓ کے ساتھ تھے لیکن تحکیم کے مسئلہ پر بگڑ گئے ۔ اور کہنے لگے کہ اس مسئلہ میں حضرت علیؓ سے گناہِ کبیرہ ہوا ۔اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب کافر ہوتا ہے ۔لہذا حضرت علیؓ کافر ہو گئے اور اب دوبارہ کلمہ پڑھیں۔
حضرت علیؓ نے یہ حکمت عملی اختیار نہیں کی کہ ان کے ساتھ جوڑ رکھنے کیلئے ان کے پاس جا کر یا ان کو اپنے پاس بلا کر دوبارہ کلمہ پڑھ لیتے اور تجدید ایمان کر لیتے جو کہ بظاہر نیکی اور ثواب کا کام ہے ۔پھر ایک دفعہ وہ جڑ جاتے تو ان کی اصلاح بھی آسان ہو جاتی ۔ لیکن حضرت علیؓ نے اس بات کو پیشِ نظر رکھا کہ جوڑ کے اس طریقے میں دین بگڑتا ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ خارجیوں کی یہ بات کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے صحیح تھی تبھی تو حضرت علیؓ نے دوبارہ کلمہ پڑھا ۔اور اگر حضرت علیؓ دوبارہ کلمہ پڑھتے اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتے کہ خارجیوں کی بات درست نہیں تب بھی لوگ خارجیوں کو بالکل غلط نہ سمجھتے اور یہ کہتے کہ خارجیوں کی بات اتنی غلط نہیں تھی ورنہ حضرت علیؓ ایسا کیوں کرتے ۔ غرض حضرت علیؓ نے اس جوڑ کے بجائے خارجیوں سے توڑ اختیار کرنا گوارا کیا اور ان سے جنگِ نہروان جیسی انتہائی سخت جنگ کی لیکن جوڑ کی اس حکمتِ عملی کو اختیا نہیں کیا ۔
(۲) ایک وقت تھا کہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ محفلِ میلاد میں شرکت کر لیتے تھے اور خود لکھتے ہیں :
“جب میں ہند کو واپس آیا تو طلب کرنے پر شریک ہونے لگا اور یہ عزم رکھا کہ ان بزرگوں کے عقائد کی اصلاح کی جائے۔چنانچہ مختلف مواقع و مجالس میں ہمیشہ اس کے متعلق گفتگو کرتا رہا ۔اور جتنے امور اصل عمل سے زائد تھا سب کا غیر ضروری ہونا اور ان کی ضرورت کے اعتقاد کا بدعت ہونا صاف صاف بیان کرتا رہا حتیٰ کہ اس وقت میری رائے میں ان کا عقیدہ توسط پر اوربعض کا قریب توسط آپہنچا ۔مگر بوجہ قدامتِ عادت کے عمل کے ارتفاع کی امید نہیں ہے ۔عدمِ شرکت میں اس اصلاح کی ہرگزتوقع نہ تھی ۔ایک غرض تو میری شرکت سے یہ تھی ۔دوسرے میں نے وہاں دیکھا کہ وعظ میں لوگ کم آتے ہیں اور ان مجالس میں زیادہ اور ہر مذاق اور ہر جنس کے،چنانچہ ان مجالس میں مواقع ان کے پندو نصائح اور اصلاح ِ عقائد و اعمال کا بخوبی موقع ملا ۔اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی اپنے عقائدفاسدہ اور اعمالِ سیئہ سے تائب ہو گئے ۔بہت روافض سنی ہو گئے ۔بہت سے سود خورو شرابی و بے نمازی وغیرہم درست ہو گئے۔”
“یہ ممکن تو ہے اور کرتا بھی ہوں کہ فی صدی نوموقع پر عذر کر دیا اور دسویں جگہ شرکت کر لی اور شرکت بھی اس نیت سے کہ ان لوگوں کو ہدایت ہو گی ۔اور یوں خیال ہوتا ہے کہ اگر خود ایک مکروہ کے ارتکاب سے دوسرے مسلمانوں کے فرائض و واجبات کی حفاطت ہو تو اللہ تعالیٰ سے امید تسامح ہے۔”
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے اس عريضہ کے جواب میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے لکھا:
“فی الحقیقت جو امر خیر کہ بذریعہ نا مشروعہ حاصل ہو وہ خود ناجائز ہے ۔۔۔۔اور اگر تسلیم کیا جائے کہ آپ کی محفل میلاد خالی ہے جملہ منکرات سے اور کوئی امر نا مشروع اس میں نہیں ہے تو دیگر مجالس تمام عالم کی تو سراسر منکر ہیں ۔اور یہ فعل آپ کا ان کیلئے موئید ہے ۔پس یہ فعل مندوب آپ کا جب مغوی خلق ہوا تو اس کے جواز کا کیسے حکم کیا جائے گا ۔اگر حق تعالیٰ نے نظر التفات بخشی تو سب واضح ہے ورنہ تاویل و شبہات کی بہت گنجائش ہے۔”
اس جواب پر مولانا تھانوی نے محفل میلاد میں شرکت کرنا ختم کر دیا اور جوڑ کا جو غیر شرعی طریقہ تھا باوجود تمام فوائد کے اس کو چھوڑ دیا۔غرض مولانا طارق جمیل صاحب کا یہ طرز عمل غلط ہے اور ان پر اس کی اصلاح واجب ہے ۔
نوٹ:رسولﷺ نے جن میلوں میں جا کر تبلیغ فرمائی وہ کفار کے مذہبی میلے نہیں تھے ۔بلکہ بازار اور منڈیاں تھیں جو ایک دنیاوی اجتماع تھا ۔رہا حج کے اجتماع میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
© Copyright 2024, All Rights Reserved