- فتوی نمبر: 33-122
- تاریخ: 06 مئی 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > اسلامی عقائد
استفتاء
مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے فقہی مقالات جلد ۴ صفحہ ۱۴۶ پر یہ عبارت لکھی ہے:
“اس طرح صاحب ہدایہ نے” تجنیس” میں اسی کو اختیار فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا کہ اگر کسی انسان کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورة فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے، اور اگر پیشاب سے لکھے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر میرے لئے شفاء ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن یہ بات منقول نہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہو جاتی ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ( ضرورت کے وقت) پیاسے انسان کے لئے شراب پینا اور بھو کے انسان کے لئے مردار کا کھانا جائز ہے”
کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ بات درست نہیں ہے،اور اس کی وضاحت خود حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے 12 اگست 2004 کے” روزنامہ اسلام ” میں کر دی ہے نیز2004 کے بعد کے “فقہی مقالات” کے ایڈیشن میں اس عبارت کو حذف بھی کر دیا ہے۔چناچہ “روزنامہ اسلام” کی عبارت یہ ہے:
“حال ہی میں بندے کی جو کتاب ” فقہی مقالات جلد چہارم” شائع ہوئی ہے اس میں فقہ کی کتاب ” البحر الرائق ” کی ایک عبارت نقل ہوئی ہے جس سے بعض حضرات کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ وہ میری عبارت ہے اور معاذ اللہ میں کسی نجاست سے سورۂ فاتحہ لکھنے کے عمل کو علاج کے لئے جائز سمجھتا ہوں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل سراسر حرام ہے اور میں اسے جائز قرار دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا …………….خلاصہ یہ ہے کہ خون ، پیشاب یا کسی بھی نجاست سے قرآن کی آیات لکھنا خواہ علاج کے لئے ہو ، مطلقا حرام ہے …………..چونکہ یہ مسئلہ بندے کے نزدیک صحیح نہیں ہے اور اس کو بطور نقل ذکر کرنے سے بھی غلط فہمی کا اندیشہ ہے اس لئے ” تکملہ فتح الملہم “اور “فقہی مقالات” سے “البحر الرائق ” کی عبارت کو کلی طور پر خارج کیا جا رہا ہے ۔ جن حضرات نے اس غلط فہمی کے ازالے کی طرف بندے کو متوجہ فرمایا ان کا میں تہ دل سے شکر گذار ہوں”
نوٹ: مکمل مضمون کے لئے 12اگست 2004 کا “روزنامہ اسلام”ملاحظہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved