• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

محاورتا دی جانے والی گالی کاحکم

استفتاء

ایک آدمی محاورتا ایک گالی بولتا ہے کہ جس میں نعوذ باللہ انبیاء کی تذلیل ہوتی ہومثلا:یہ کہنا کہ تم کیا بابا جی( بابائے آدم علیہ السلام ) کا ….. لینے آئے ہو‘‘ایسے الفاظ کا استعمال اکثر دیہات میں محاورتا کیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ ان الفاظ کو بولنے والے کا کیا حکم ہے؟کیا اس کا اسلام باقی ہے؟کیا اس کا نکاح باقی ہے؟ایسے الفاظ بولنے والے کے لئے شریعت کیا حکم دیتی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے :

سائل نے یہ کیسے متعین کر لیا کہ بابا جی سے مراد آدم علیہ السلام ہیں؟

جواب وضاحت :

سائل نے متعین نہیں کیا قائل نے متعین کیا ہے۔

مزید وضاحت مطلوب ہے :

قائل کا اپنا بیان مطلوب ہے؟

جواب وضاحت :

یہ قائل ہی کا بیان ہے قائل بیرون ملک روزگار کیلئے گیا ہوا ہے اور ایک دن اپنی بیوی سے فون پر بات کر رہا تہا کہ بیوی نے بتایا کہ ہمارا ایک اور عزیز سعودیہ آ رہا ہے روزگار کے لئے جس پر قائل بولا کہ یہاں تو پہلے ہی بہت مندی ہے وہ یہاں کیا بابے آدم کا ..لینے آ رہا ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں قائل نے گالی کی نسبت اپنے مخاطب کی طرف کی ہے نہ کہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف ۔اس لیے قائل کے اس جملے کو انبیاء علیھم السلام کی تذلیل نہیں کہا جاسکتا ۔تاہم گالی دینا ویسے بھی گناہ ہے اور گالی میں کسی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا تذکرہ کرنا مزید گناہ کی بات ہے اس لیے قائل پر لازم ہے سابقہ  پر سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ کے لیے ایسا جملہ کہنے سے احتیاط کرے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved