- فتوی نمبر: 10-49
- تاریخ: 27 مئی 2017
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلفاً بیان کرتی ہوں کہ میرے خاوند تیز مزاج اور غصے کے حامل ہیں، دینی شعور زیادہ نہیں ہے اور میری زبان میں بھی جواب دینے کی حد تک تیزی آجاتی تھی جس کی وجہ ان کی ہر وقت گالی گلوچ اور ہر ایک کے سامنے مجھے ذلیل کرنا تھی، میں حتی الامکان گھر بسانے کی بھر پور کوشش کرتی رہی لیکن ان کی دوسری بیوی نے مجھے بے بس کر دیا ہے اور رہی سہی کسر مسلسل جھگڑوں اور طلاقوں نے پوری کردی۔ شادی کے بعد سے لے کر ہمارے تعلق کے آخری دن تک انہوں نے مجھے بارہا طلاق کے الفاظ کہے ہیں، بہت سے لوگ بھی ان الفاظ کے گواہ ہیں مگر وہ اب اس معاملے میں دلچسپی نہیں رکھتے، نہ گواہی پر آمادہ ہیں، مجھے بھی پہلے زیادہ دینی شعور نہیں تھا ایک دفعہ میں نے کینیڈا میں امام مسجد سے پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا بی بی جب تک تمہارا سنبھالنے والا کوئی نہیں ہو جاتا اسی گھر میں رہو، جب حالات بہتر ہو جائیں تو پھر الگ ہو جانا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مجھے طلاق کے الفاظ بہت دفعہ کہے ہیں تین موقع مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ نیز میرے میاں کی دوسری بیوی بھی ہے جس سے ان کی تین بچیاں بھی ہو گئی ہیں۔ میاں طلاق کو بالکل نہیں مانتے ، میں نے عدالت سے خلع لے لیا ہے کاپی ساتھ منسلک ہے۔ پہلے ایک عرصے تک وہ میرے بچوں سے بھی لا تعلق رہے نہ خرچہ نہ دیکھ بھال۔ اب کچھ عرصے سے بچوں میں دلچسپی لینے لگ گئے ہیں اور بچی کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں اور بچوں کے لیے 50 ہزار خرچہ دینا شروع کیا ہے ورنہ اس سے قبل میرا تمام خرچہ اور ذمہ داری میرے بھائیوں نے اٹھائے رکھی ہے۔
طلاق کے جو الفاظ مجھے یاد ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ پہلی مرتبہ جب میری بچی دو ماہ کی تھی تو یہ الفاظ بولے ’’جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی‘‘۔
2۔ دوسری مرتبہ جب میرا بچہ ساتویں مہینہ میں تھا تو یہ الفاظ بولے ’’میں نے تمہیں طلاق دے دی، نیچے اتر جا‘‘۔
3۔ تیسری مرتبہ جب میں کینیڈا میں تھی تو میرے بچوں کے سامنے یہ الفاظ بولے ’’میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘‘۔
سوالات: 1۔ مجھے بتایا جائے کہ میرے نکاح کا کیا حکم ہے؟
2۔ کیا طلاق زبانی بھی ہو جاتی ہے یا اس کے لیے باضابطہ تحریری ہونا ضروری ہے؟
3۔ اگر طلاق کے موقع پر موجود گواہ گواہی نہ دیں تب بھی طلاق مؤثر ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں عورت کے حلفیہ بیان کے مطابق خاوند نے مختلف موقعوں پر جو الفاظ بولے ہیں ان کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے نکاح مکمل طور سے ختم ہو چکا ہے۔ لہذا اب صلح اور رجوع کی گنجائش باقی نہیں ہے۔
نوٹ: طلاق کے مؤثر ہونے کے لیے تحریری ہونا یا اس پر گواہ قائم کرنا ضروری نہیں۔ صرف زبانی کہنے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔
عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس فجاءه رجل فقال إنه طلق امرأته ثلاثاً فسكت حتى ظننت أنه سيردها إليه فقال ينطلق أحدكم فيركب الأحموقة ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس يا ابن عباس ! إن الله قال : و من يتق الله يجعل له مخرجاً و إنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجاً عصيت ربك و بانت منك امرأتك. ( سنن أبو داؤد )
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ( بیٹھا ) تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو ( ایک وقت میں ) تین طلاقیں دے دی ہیں تو ( کیا کوئی گنجائش ہے، اس پر ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کچھ دیر خاموش رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ ( شاید کوئی صورت سوچ کر) و ہ اس کی بیوی اس کو واپس دلادیں گے ( لیکن ) پھر انہوں نے فرمایا : تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے اور حماقت پر سوار ہوجاتا ہے ( اور تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے ) اور پھر( میر پاس آکر ) اے ابن عباس! اے ابن عباس! اے ابن عباس! ( کوئی راہ نکالیے ) کی دہائی دینے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "و من يتق الله يجعل له مخرجاً” ( ترجمہ: جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں ) تم تو اللہ سے ڈرے نہیں (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ( اس لیے تمہارے لیے خلاصی کی کوئی راہ نہیں ) اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔
در مختار (5/43) میں ہے:
(لا) ينكح (مطلقة) …. (بها) أي بالثلاث.
فتاویٰ شامی (4/449) میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه. …. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved