- فتوی نمبر: 25-249
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ان شرائط کے بارے میں کہ کیا یہ شرائط وضوابط شرعی طور پر درست ہیں ؟ اگر کسی شق میں کوئی غیر شرعی بات ہو تو اس کی وضاحت فرمائیں ۔
1)میں صدقِ دل سے اقرار کرتا ہوں کہ تمام احکام شرعیہ کا پابند رہوں گا ۔
2)نماز ہمیشہ باجماعت ادا کرونگا ۔
3)اساتذہ جامعہ کا احترام کروں گا اور ملازمین ومنتظمین جامعہ کو ناراضگی کا موقع نہیں دوں گا ۔
4)بچے کو مدرسے کے اندر پہنچانا اور گھرتک لے جانا گھر والوں کی ذمہ داری ہے مدرسہ صرف پڑھائی کے اوقات کا ذمہ دار ہے آنے جانے میں بچہ اِدھر اُدھر ہوجائے تو ادارہ اس کا ذمہ دار نہ ہوگا ۔
5)داخلہ کے بعد منتظمین جامعہ کی اجازت کے بغیر سالانہ امتحان سے پہلے کسی جگہ نہیں جاؤنگا ۔
6)جب تک میں جامعہ مکتب بیت القرآن بنوریہ میں قیام پزیرہوں میری طرف سے حضرت مہتمم صاحب یا جس کو وہ اجازت دیں اس کااختیارہوگا کہ وہ میرے لیے زکوٰۃ یا صدقات کی رقم یا اشیاء وصول کریں اور میری طرف سے طلباء کی ضروریات،قیام وطعام وتعلیم وغیرہ میں حسبِ صوابدید خرچ کریں یا جامعہ تدریس القرآن بنوریہ کی ملکیت میں دیں یا اس پر وقف کردیں ۔
7)بعض طلباء بغیر اطلاع اور رخصت کے چھٹی کرتے ہیں ۔لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک چھٹی پر تنبیہ کی جائے گی اور بغیر اطلاع 3چھٹیاں کرنے پر نام خارج کردیا جائے گا پھر کسی کوکوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔
نوٹ :بچے کے متعلق کسی بھی قسم کی ملاقات کرنی ہوتو صرف مہتمم صاحب یا دفتر کے ذمہ دار سے رابطہ کریں۔ کلاس میں جانے کی کوشش نہ کریں کہ اس سے طلباء واساتذہ کا وقت ضائع ہوتا ہے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ شرائط میں سے کوئی شرط چونکہ شریعت کے خلاف نہیں اس لیے مدرسہ کی انتظامیہ کا مدرسے کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے یہ شرائط لگانا جائز ہے۔البتہ شرط نمبر6 میں مذکور توکیل نامے سے ہمیں اتفاق نہیں، کیونکہ ہماری نظر میں یہ بھی ایک حیلہ ہے اور حیلے کو عام معمول نہیں بنانا چاہیے بلکہ بوقتِ ضرورت اور بقدرِ ضرورت اسے اختیار کیا جائے۔ہماری نظر میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ اول تو مہتمم ہر طالب علم پر مدرسہ میں قیام،کھانے اور تعلیم کے اخراجات کی مد میں فیس مقرر کردے ۔اور پھر مہتمم ہر مستحق طالب علم کا ماہانہ وظیفہ صدقاتِ واجبہ میں سے اور غیرمستحق کا صدقات واجبہ کے علاوہ میں سے مقرر کردے اور یہ وظیفہ اس کوپکڑا بھی دیا جائے ۔پھر اس میں سے ماہانہ فیس کے بقدررقم لے کر باقی رقم طالب علم کے پاس چھوڑدے(کہ طالب علم کے ناشتے اور بعض دیگر ضروریات کے لیے ہو)۔مثلاً آٹھ سو روپے وظیفہ مقرر کردیا جائے اور سات سو روپے فیس مقرر کردی جائے پھر طالب علم کو آٹھ سو روپے دے کر سات سو روپے فیس کی مد میں واپس لے لیں اور باقی ایک سو روپیہ طالب علم کے پاس چھوڑ دیں ۔اس طریقہ سے کھانے کے اخراجات تو واضح ہیں۔ قیام کےاخراجات میں سے بجلی گیس پانی مدرسہ کے خدمتی عملہ کی تنخواہیں بشمول ان کی رہائش اور مدرسہ کی تعمیر مرمت کے خرچے نکالے جاسکتے ہیں ۔تعلیم کے اخراجات میں سے اساتذہ کی تنخواہیں بشمول ان کی رہائش کے خرچے اور درسی کتب کے اخراجات نکالے جاسکتے ہیں ۔اس طریقہ میں ایک اور آسان طریقہ یہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ شروع سال میں طلبہ سے ایک فارم پر دستخط کرالیے جائیں کہ وہ مدرسہ کے مقررکیے ہوئے ایک ملازم کو اپنا وکیل مقرر کرتے ہیں جومہتمم سے ان کا وظیفہ وصول کرلے اور اس میں سے فیس کے بقدر کٹوتی کرکےبقیہ رقم (جو ان کے ناشتہ وغیرہ کی ہو)ان طلباء کوادا کردے ۔چونکہ فیس کی ادائیگی لازم ہےاس لیےاس توکیل نامےپرطالب علم مجبوراًبھی دستخط کرے تو اس سے کچھ فرق نہ پڑےگا۔
مزید تفصیلات کےلیے ملاحظہ فرمائیں فقہی مضامین (صفحہ273)
فتاوی عالمگیری (244/4) میں ہے: وكذلك من عليه الزكاة لو أراد صرفها إلى بناء المسجد أو القنطرة لا يجوز فإن أراد الحيلة فالحيلة أن يتصدق به المتولي على الفقراء ثم الفقراء يدفعونه إلى المتولي ثم المتولي يصرف إلى ذلك.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved