- فتوی نمبر: 14-323
- تاریخ: 28 اگست 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1 -کیا حدیث شریف کے حوالے سے ایسا ہے کہ جب کوئی تمہارے منہ پر تمہاری تعریف کرے تو اسے کہہ دے کہ ’’تمہارے منہ میں خاک‘‘ کیا ایسی حدیث شریف ہے؟
2- کیا اگر کوئی کسی کی جائز تعریف بھی کر رہا ہو تو اسے منہ پر کہہ دیا جائے’’ تمہارے منہ میں خاک ‘‘کیا اس طرح ہم سنت پر عمل پیرا ہوں گے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1- جب کوئی شخص کسی کے منہ پر اس کی تعریف کر رہا ہو توتعریف کرنے والے کے منہ پر مٹی ڈالنے کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے، البتہ اس میں چند باتیں قابل لحاظ ہیں:
1 -تعریف سے مرادوہ تعریف ہے جس میں بےجا مبالغہ ہویا تعریف کرنے والے کی کوئی دنیاوی غرض ہویا کوئی کسی کی جھوٹی تعریف کررہا ہو۔ لیکن اگر کوئی جائز تعریف کر رہا ہو یا کسی نیک کام پر کسی کی تعریف کررہا ہو اورکوئی دنیاوی غرض بھی نہ ہو تو یہ تعریف مراد نہیں۔
2-بعض حضرات نے مٹی ڈالنے کاظاہری معنی مراد لیا ہے جبکہ اکثر حضرات نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ تعریف کرنے والے کو کچھ عطا مت کرو اور اسے اپنی عطا سے محروم کرو (اوراسے تعریف کرنے پر شاباش وغیرہ بھی نہ دو تاکہ اس کی بے جا تعریف کرنے کی حوصلہ شکنی ہو)
فی المسلم:2/414
عن ابی معمر قال قام رجل یثنی علی امیر من الامراء فجعل المقداد یحثی علیه التراب وقال امرنا رسول اللهﷺ ان نحثی فی وجوه المداحین التراب۔
ترجمہ: ابو معمر سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں ایک آدمی کھڑے ہوئے امراء میں سے کسی کی تعریف کرنے لگے تو حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ تعریف کرنے والے پر مٹی ڈالنے لگے اور فرمایا ہمیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔
فی المسلم:2/414
عن همام بن الحارث ان رجلا جعل یمدح عثمان فعمد المقداد فجثا علی رکبتیه وکان رجلا ضخما فجعل یحثو فی وجهه الحصباء فقال له عثمان ماشأنک فقال ان رسول اللهﷺ قال اذا رأیتم المداحین فاحثوا فی وجوههم التراب
ترجمہ:حضرت ہمام بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی تعریف کرنے لگے تو حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور وہ جسامت میں قدرے موٹے تھے اور تعریف کرنے والے کے منہ میں کنکریاں ڈالنے لگے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی تعریف کرنے والے کو دیکھو تو اس کے چہرے پر مٹی ڈال دو
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (14/ 93)
قال الخطابي المداحون هم الذين اتخذوا مدح الناس عادة وجعلوه بضاعة يستأكلون به الممدوح فأما من مدح الرجل على الفعل الحسن والأمر المحمود يكون منه ترغيبا له في أمثاله وتحريضا للناس على الاقتداء في أشباهه فليس بمداح وفي شرح السنة قد استعمل المقداد الحديث على ظاهره في تناول عين التراب وحثيه في وجه المادح وقد يتأول على أن يكون معناه الخيبة والحرمان أي من تعرض لكم بالثناء والمدح فلا تعطوه واحرموه كنى بالتراب عن الحرمان كقولهم ما في يده غير التراب وكقوله إذا جاءك يطلب ثمن الكلب فاملأ كفه ترابا وفي الجملة المدح والثناء علی الرجل مکروہ لانه قلما یسلم المادح عن کذب یقوله فی مدحه وقلما یسلم الممدوح من عجب یدخله۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (32/ 242، بترقيم الشاملة آليا)
مطابقته للترجمة تؤخذ من معنى الحديث وهو أن يفرط في مدح الرجل بما ليس فيه فيدخله من ذلك الإعجاب ويظن أنه في الحقيقة بتلك المنزلة فلذلك قال رسول الله قطعتم ظهر الرجل حين وصفتموه بما ليس فيه فربما حمله ذلك على العجب والكبر وعلى تضييع العمل وترك الإزدياد والفضل ومن ذلك تأول العلماء في قوله احثوا التراب في وجوه المداحين أن المراد بهم المداحون الناس في وجوههم بالباطل وبما ليس فيهم ولم يرد بهم من مدح رجلا بما فيه فقد مدح رسول الله في الأشعار والخطب والمخاطبة ولم يحث في وجوه المداحين التراب ولا أمر بذلك وقد قال أبو طالب فيه
( وأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل )
ومدحه حسان في كثير من شعره وكعب بن زهير وغير ذلك
© Copyright 2024, All Rights Reserved