• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مقبرہ کی گھاس کاٹ کر استعمال میں لانا

  • فتوی نمبر: 29-341
  • تاریخ: 08 اکتوبر 2023
  • عنوانات:

استفتاء

مقبرہ میں جو گھاس ہوتی ہے وہ کوئی کاٹ کر اپنے استعمال میں لاسکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قبرستان کی خشک گھاس کو کاٹ کر استعمال میں لایا جا سکتا ہے البتہ تر گھاس میں  یہ تفصیل ہے کہ جو گھاس قبر کے اوپر ہو اس کو کاٹنا تو مکروہ تنزیہی ہے  البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے قبر کے اوپر والی گھاس کو کاٹا جائے تو پھر کراہت تنزیہی بھی نہیں، اور جو قبروں کے درمیان یا راستوں میں ہو اسے کاٹا جا سکتا ہے ۔

توجیہ:فقہائے کرام نے تر گھاس کے کاٹنے کو مکروہ لکھا ہے اور کراہت کی علت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب تک گھاس تر رہتی ہے وہ تسبیح کرتی  رہتی ہے جس سے مردوں کو سکون حاصل ہوتا ہے اس لیے اسے کاٹنا مکروہ ہے اور جب خشک ہوجاتی ہے تو تسبیح کرنا چھوڑ دیتی ہے  اس لیے اس کا کاٹنا جائز ہے ۔ اسی طرح قبروں  کے اطراف اور راستوں میں جو گھاس ہے  اس کے نیچے مردے نہ ہونے کی وجہ سے  مذکورہ علت نہیں پائی جاتی  اس لیے اس  کا کاٹنا بھی جائز ہوگا  البتہ جو تر گھاس قبروں کے اوپر ہے اس میں یہ علت پائی جارہی ہے لہٰذا اس کا کاٹنا مکروہ تنزیہی ہوگا۔

شامی (2/ 245) میں ہے:

يكره أيضا قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة ‌دون ‌اليابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله – تعالى – فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اهـ ونحوه في الخانية

مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح (ص230) میں ہے:

كره "قلع الحشيش” الرطب "و” كذا "الشجر من المقبرة” لأنه ما دام رطبا يسبح الله تعالى فيؤنس الميت وتنزل بذكر الله تعالى الرحمة "ولا بأس بقلع اليابس منهما” أي الحشيش والشجر لزوال المقصود.

ہندیہ (1/ 167) میں ہے:

«ويكره قطع الحطب والحشيش من المقبرة فإن كان ‌يابسا لا بأس به، كذا في فتاوى قاضي خان.

درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 168) میں ہے:

ويكره القعود على القبور وقلع الشجر والحشيش من المقبرة ولا بأس في اليابس

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 211) میں ہے:

«ويكره قطع الحطب والحشيش من المقبرة إلا إذا كان يابسا، ولا يستحب قطع الحشيش الرطب اهـ»

کبیری (ص:543) میں ہے:

ايضاً وقطع النبات الرطبة من اعلاه دون اليابس

خیر الفتاوی( 591/6 )میں ہے :

موقوفہ قبرستان میں بعض اوقات گھاس وغیرہ اگ جاتی ہے اگر اس کو کاٹ کر استعمال میں نہ لایا جائے تو خشک ہو کر گل سڑ جاتی ہے اور ضائع ہو جاتی ہے لہذا اگر کوئی شخص گھاس کاٹ کر اپنے جانوروں کو ڈال دے تو کیا شرعاً اس میں کوئی حرج تو نہیں ؟

الجواب : قبرستان سے خشک گھاس اور خشک شاخیں کاٹنا بلا شبہ درست ہے۔ تر گھاس اور شاخیں کاٹنے سے حضرات فقہاء کرام منع کرتے ہیں ہیں اس کی علت مُردوں کو تر گھاس کی تسبیحات سے جو نفع ہوتا ہے اس سے محرومی ہے ۔لہذا اس کی روشنی میں قبور کے درمیان یا راستوں پر موجود گھاس کو کاٹنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے ،البتہ قبور کے اوپر جو گھاس ہے اسے کاٹنے سے احتراز کیا جائے الا یہ کہ وہ بہت زیادہ بڑھ جائے تو ایسی صورت میں اوپر سے اس کے کاٹنے کی گنجائش ہے ۔

فتاویٰ رحیمیہ (7/125) میں ہے:

سوال:  قبرستان میں قبروں پر سبز گھاس اور درخت ہوتے ہیں ان کو کاٹ دیا جائے تاکہ لوگوں کو آمد ورفت میں تکلیف نہ ہو تو کوئی مضائقہ تو نہیں؟ بینوا توجروا۔

جواب: مستحب یہ ہے کہ قبر کے اوپر کی تر گھاس وغیرہ نہ کائی جائے اس سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے اور فائدہ پہنچتا ہے، ہاں خشک ہونے کے بعد کاٹنے میں مضائقہ نہیں، البتہ اگر قبر کے آس پاس گھاس وغیرہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو تو اسے کاٹ کر راستہ صاف کیا جاسکتا ہے۔

شوک او حشيش نبت على القبور ان كان رطبا يكره قلعه وان كان يا بسالاً يكره لا نه ما دام رطباً يسبح ويحصل للميت بتسبيحه انس (نصاب الاحتساب قلمى ص 84 باب (42 وكره قلع الحشيش والشجرة من المقبرة ولا بأس بقلع اليابس منهما نور الايضاح فضل في زيارة القبور) (وكره قلع الحشيش) الرطب وكذا الشجرة) من المقبرة ( لانه مادام رطباً يسبح الله تعالى فيونس الميت وتنزل بذكر الله تعالى الرحمة (ولا باس بقلع اليابس منهما أى الحشيش والشجر لزوال المقصود (مراقی الفلاح ص 121 (ايضاً وقطع النبات الرطبة من اعلاه دون اليا بس كبيرى ص 543 فصل في الجنائز) يكره قلع ما نبت على القبور ما دام رطباً لا نه يسبح ما دام رطباً وان يبس لا بأس به (فتاوی سراجيه ص فصل في الجنائز فقط والله اعلم بالصواب .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved