- فتوی نمبر: 34-94
- تاریخ: 19 اکتوبر 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > ایمان اور کفر کے مسائل
استفتاء
مرتد کی اولاد مرتد ہوگی یا غیر مسلم؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
والدین کے ارتداد کے وقت اولاد یا تو بالغ ہوگی یا نابالغ ہوگی
اگر اولاد بالغ ہے تو والدین کے ارتداد سے اولاد کے اسلام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا یعنی اولاد مسلمان ہی رہے گی چاہے دار الحرب میں ہو یا دارالاسلام میں ہو، چاہے والدین میں سے کوئی ایک مرتد ہو یا دونوں مرتد ہو ں
اگر اولاد نابالغ ہے تو پھر دیکھیں گے کہ ارتداد سے پہلے پیدا ہوئی یا بعد میں پیدا ہوئی:
(الف) اگراولاد ارتدادسے پہلے پیدا ہوئی اور والدین میں سے ایک مرتد ہوا تو اولاد مسلمان شمار ہوگی چاہے دارالحرب میں ہو یا دارالاسلام میں اور اگر دونوں مرتد ہو گئے تو پھر جب تک دا رالاسلام میں ہے تو مسلمان شمار ہوگی اور اگر دارالحرب چلے گئے تو اولاد مرتد شمار ہوگی البتہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا اور بالغ ہونے کے بعد چاہے دارالحرب میں ہو یا دارالاسلام میں ہو اسے اختیار ہوگا اگر اسلام کو اختیار کرے تو مسلمان شمار ہوگی اور اگر والدین کے مذہب کو اختیار کرے تو مرتد شمار ہوگی لیکن قتل پھر بھی نہیں کیا جائے گا
(ب)اور اگر اولاد والدین کے ارتداد کے بعد پیدا ہوئی اور والدین میں سے کوئی ایک مرتد ہوا ہے تو اولاد خیرالابوین کے تابع ہو کر مسلمان شمار ہوگی چاہے دار الحرب میں ہو یا دارالاسلام میں اور اگر دونوں مرتد ہو ئے ہیں تو پھر اولاد مرتد شمار ہوگی چاہے دارالاسلام میں ہو یا دارالحرب میں اور بالغ ہونے کے بعد چاہے دارالاسلام میں ہو یا دار الحرب میں اسے اختیار ہوگا اگر اسلام کو اختیار کرے تو مسلمان شمار ہوگی اور اگر والدین کے مذہب کو اختیار کرے تو مرتد شمار ہوگی البتہ قتل اس کو بھی نہیں کیا جائے گا۔
بدائع الصنائع(9/450)میں ہے:
وأما حكم ولد المرتد فولد المرتد لا يخلو من أن يكون مولودا في الإسلام، أو في الردة، فإن كان مولودا في الإسلام، بأن ولد للزوجين ولد وهما مسلمان، ثم ارتدا لا يحكم بردته ما دام في دار الإسلام؛ لأنه لما ولد وأبواه مسلمان فقد حكم بإسلامه تبعا لأبويه، فلا يزول بردتهما لتحول التبعية إلى الدار، إذ الدار وإن كانت لا تصلح لإثبات التبعية ابتداء عند استتباع الأبوين، تصلح للإبقاء؛ لأنه أسهل من الابتداء، فما دام في دار الإسلام يبقى على حكم الإسلام، تبعا للدار، ولو لحق المرتدان بهذا الولد بدار الحرب فكبر الولد، وولد له ولد وكبر، ثم ظهر عليهم أما حكم المرتد والمرتدة فمعلوم، وقد ذكرنا أن المرتد لا يسترق ويقتل، والمرتدة تسترق ولا تقتل وتجبر على الإسلام بالحبس وأما حكم الأولاد فولد الأب يجبر على الإسلام، ولا يقتل؛ لأنه كان مسلما بإسلام أبويه تبعا لهما، فلما بلغ كافرا فقد ارتد عنه، والمرتد يجبر على الإسلام، إلا أنه لا يقتل؛ لأن هذه ردة حكمية لا حقيقية لوجود الإيمان حكما بطريق التبعية لا حقيقة، فيجبر على الإسلام لكن بالحبس لا بالسيف إثباتا للحكم على قدر العلة، ولا يجبر ولد ولده على الإسلام؛ لأن ولد الولد لا يتبع الجد في الإسلام، إذ لو كان كذلك لكان الكفار كلهم مرتدين لكونهم من أولاد آدم ونوح – عليهما الصلاة والسلام – فينبغي أن تجري عليهم أحكام أهل الردة، وليس كذلك بالإجماع، وإن كان مولودا في الردة بأن ارتد الزوجان ولا ولد لهما، ثم حملت المرأة من زوجها بعد ردتها، وهما مرتدان على حالهما، فهذا الولد بمنزلة أبويه له حكم الردة حتى لو مات لا يصلى عليه؛ لأن المرتد لا يرث أحدا، ولو لحقا بهذا الولد بدار الحرب فبلغ، وولد له أولاد فبلغوا، ثم ظهر على الدار وسبوا جميعا، يجبر ولد الأب وولد ولده على الإسلام، ولا يقتلون كذا ذكر محمد في كتاب السير وذكر في الجامع الصغير أنه لا يجبر ولد ولده على الإسلام.
طوالع الانوار مخطوط میں ہے:
(زَوْجَانِ ارْتَدَّا)، يعني: لو ارتد مسلم وزوجته المسلمة، (ولَحِقَا) بدار الحرب، (فَوَلَدَتِ المُرْتَدَّةُ وَلَدًا)، سواءٌ حملت به في دار الإسلام أو في دار الحرب.
وقيد بـ : «الولادة بعد اللحاق»؛ لأنه إذا كان موجودًا منفصلا حين الردة قبل اللحاق: فإنه لا يكون مرتدا بردتهما؛ لأنه ثبت له حكم الإسلام بالتبعية، فلا يزول بردتهما، إلا إذا لحقا به أو أحدهما إلى دار الحرب؛ فإنه خرج عن الإسلام؛ لأنه كان بالتبعية أو للدار، وقد انعدم الكل فيكون فيئًا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved