- تاریخ: 05 ستمبر 2015
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
چند باتيں پیشِ خدمت ہیں۔ امید ہے کہ غور فرمائیں گے۔
1۔ آپ کی حالیہ تحریر کا خلاصہ میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کا خیال یہ ہے کہ جب تک کسی حدیث کی معتبر سند نہ مل جائے، اس وقت تک اس حدیث کو حدیث کہہ کر یعنی جناب نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ ایسی حدیث کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہو، یا یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہو۔
چنانچہ آپ کی حالیہ تحریر کے چند اقتباسات یہ ہیں:
i۔ محدثین کی تصریحات کے مطابق کسی بات کے حدیثِ رسول ہونے کا معیار "سند” ہے۔
یہ تو ٹھیک ہے، لیکن اس بارے میں چند باتیں قابل غور ہیں:
1۔ کیا "عدمِ وجودِ سند” "عدمِ سند” کی دلیل بن سکتا ہے؟
2۔ اگر بن سکتا ہے تواس کے لیے کتنے تتبع کی ضرورت ہے؟
3۔ جتنے تتبع کی ضرورت ہے، کیا وہ کر لیا ہے؟ یا ہمارے پاس تلاش کے جو موجود ذرائع ہیں وہ اس تتبع کے لیے کافی ہیں؟
ii۔ جب تک کسی حدیث کی معتبر سند نہ مل جائے، اس وقت تک اس حدیث کو حدیث کہہ کر یعنی جناب نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
1۔ اس بات کاکیا حوالہ ہے؟
2۔ کیا ہر مرسل حدیث کی معتبر سند موجود ہے۔
3۔ اگر نہیں، تو کیا مرسل پر حدیث کا اطلاق محدثین نہیں کرتے۔
iii۔ چنانچہ محدثین کرام کی تصریحات کے مطابق کسی بات کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ اس کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہے، یا یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہے۔
1۔ اس کا کیا حوالہ ہے؟
2۔ کیا تمام تعلیقاتِ بخاری ؒ یا تمام بلاغاتِ امام محمد ؒ کی سندیں مل گئی؟
3۔ اگر مل گئی ہیں تو کس کتاب میں ہیں؟
4۔ اگر بعض کی نہیں ملی تو کیا ان بلاغات و تعلیقات کو جن کی سندیں نہیں ملیں، حدیث کہہ کر بیان نہیں کر سکتے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
چند باتيں پیشِ خدمت ہیں۔ امید ہے کہ غور فرمائیں گے۔
آپ کی حالیہ تحریر کا خلاصہ میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کا خیال یہ ہے کہ جب تک کسی حدیث کی معتبر سند نہ مل جائے، اس وقت تک اس حدیث کو حدیث کہہ کر یعنی جناب نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ ایسی حدیث کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہو، یا یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہو۔
چنانچہ آپ کی حالیہ تحریر کے چند اقتباسات یہ ہیں:
i۔ محدثین کی تصریحات کے مطابق کسی بات کے حدیثِ رسول ہونے کا معیار "سند” ہے۔
ii۔ جب تک کسی حدیث کی معتبر سند نہ مل جائے، اس وقت تک اس حدیث کو حدیث کہہ کر یعنی جناب نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
iii۔ چنانچہ محدثین کرام کی تصریحات کے مطابق کسی بات کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ اس کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہے، یا یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہے۔
1۔ ان تین اقتباسات کے بارے میں گذارش ہے کہ اگر آپ کے سامنے ان کے کچھ حوالہ جات ہوں تو وہ ذکر کر دیجیے، تاکہ ان عبارات کے سیاق و سباق کو دیکھ کر ان کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھنا ہمارے لیے سہل ہو۔
2۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ چونکہ اس حدیث کی سند باوجود تلاش کرنے کے ملتی نہیں ہے، اس لیے اس کی سند ہے ہی نہیں۔ اور جب کسی بات کی سند ہی نہ ہو تو ایسی بات پر حدیث کا اطلاق جائز نہیں۔ لہذا مذکورہ حدیث پر حدیث کا اطلاق جائز نہیں۔
اس کے بارے میں گذارش ہے کہ آپ کی یہ بات اس حد تک تو درست معلوم ہوتی ہے کہ "جب کسی بات کی سند ہی نہ ہو تو ایسی بات پر حدیث کا اطلاق درست نہیں”۔ لیکن زیر بحث حدیث کے بارے میں "عدم سند” کی دلیل "عدمِ وجود” کو بنانا بظاہر درست نہیں۔ کیونکہ ایک تو تلاش و تتبع کے جو ذرائع ہماری دسترس میں ہیں وہ ایسے نہیں کہ جن کی بنیاد پرہم تتبع تام اور تمام متونِ حدیث میں زیر بحث حدیث یا اس کی سند کو دیکھ لینے کا دعویٰ کر سکیں۔
بالخصوص جبکہ تتبع اور تلاش بھی ہم جیسوں کی ہو۔ اور زیرِ بحث حدیث کو بطور حدیث کے ذکر کرنے والے حضرات مجدد الف ثانی([1])، شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہما اللہ جیسے صاحب علم و عمل حضرات ہوں۔
میرا مقصد صرف ان حضرات کی وجاہت کو بیان کرنا نہیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ جس حدیث کو یہ حضرات بطور حدیث کے ذکر کر رہے ہیں اس کے خلاف اگر ہمارے پاس کوئی مضبوط دلیل ہے تو فبہا۔ ورنہ محض اس وجہ سے کہ عام کتبِ حدیث میں ہمیں یہ حدیث نہیں ملی، اور جن کتب میں اس کا تذکرہ ہے ان میں یا دیگر کتب میں ہمیں اس کی سند نہیں ملی، لہذا اس پر حدیث کا اطلاق درست نہیں، ایک کمزور بات معلوم ہوتی ہے۔
3۔ اور اگر اصول یہی ہے کہ جس حدیث کی سند مذکور نہ ہو، تو جب تک ہمیں اس کی معتبر سند نہ مل جائے، اس وقت تک اس پر حدیث کا اطلاق جائز نہیں، اگرچہ ان کو کسی بڑے محدث نے بیان کیا ہو یا کسی معتبر کتاب میں موجود ہو تو لازم آئے گا کہ "مراسیل” اور "تعلیقات” پر حدیث کا اطلاق نہ کیا جائے۔ حالانکہ "مراسیل” اور "تعلیقات” کی سند مذکور نہ ہونے کے باوجود محض اعتماد کی وجہ سے محدثین و فقہاء ان پر حدیث کا اطلاق بھی کرتے ہیں، اور انہیں قبول بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ "مرسل حدیث” کے بارے میں شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ مقدمہ مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:
و عند أبي حنيفة و مالك المرسل مقبول مطلقاً و هم يقولون إنما أرسله لكمال الوثوق و الاعتماد، لأن الكلام في الثقة، و لو لم يكن عنده صحيحاً لم يرسله و لم يقل قال رسول الله صلی الله عليه و سلم.
4۔ اسی طرح تعلیقات بخاریؒ کے بارے میں بھی شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ مقدمہ مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:
و قد يفرق فيها بأن ما ذكر بصيغة الجزم و المعلوم كقوله قال فلان أو ذكر فلان دل علی ثبوت اسناده عنده فهو صحيح قطعاً و ما ذكره بصيغة التمريض و المجهول كقيل و يقال و ذكر، ففي صحته عنده كلام، و لكنه لما أورده في هذا الكتاب كان له أصل ثابت.
5۔ آپ نے لکھا ہے:
"اکابرین کا کسی بھی کتاب کے بارے میں تعریفی کلمات کہنے کا مطلب ظاہر ہے کہ یہی ہے کہ وہ کتاب مجموعی اعتبار سے معتبر و مستند ہے۔ لیکن اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اس میں موجود تمام روایات از روئے اسناد قابل اعتبار و احتجاج بھی ہیں۔”
اس کے بارے میں عرض ہے کہ کسی کتاب کے مجموعی اعتبار سے معتبر و مستند ہونے کے بعد اس میں موجود کسی روایت کے عدم اعتبار کا حکم بھی تو آخر کسی قوی اور معتبر دلیل کے بغیر نہیں لگا سکتے۔ باقی رہی عدمِ اعتبار کی یہ وجہ کہ زیرِ بحث حدیث کی”سند” مذکورہ نہیں، اس کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved