• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

’’نعبد‘‘کاترجمہ ایک ہی وقت میں حال اور مستقبل سے کرناصحیح نہیں ہے۔

استفتاء

جیسے کی انگریزی اور اردو زبان میں تین زمانے ہوتے ہیں ماضی حال مستقبل لیکن عربی میں دو زمانے ہوتے ہیں ماضی مضارع جس میں موجودہ اور آنے والا زمانہ پایا جاتا ہے اس لحاظ سے سورہ فاتحہ میں موجود لفظ’’ نعبد‘‘جمع متکلم کا صیغہ ہے توہم اگر اس کا یوں ترجمہ کریں کہ’’ ہم  تیری عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے‘‘ تو کیا یہ ترجمہ درست ہوگا؟ برائے مہربانی اس پر روشنی ڈالیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ بات غلط ہے کہ عربی میں دوزمانے ہوتے ہیں بلکہ عربی میں بھی تین زمانے ہوتے ہیں البتہ مضارع کاصیغہ حال اور مستقبل دونوں میں مشترک ہے جن میں سے کسی ایک کی تعیین قرائن حالیہ یا مقالیہ سے ہو جاتی ہے اور یہ اصول ہے کہ بیک وقت مشترک کے دونوں معنی مراد لینا درست نہیں لہٰذا ایاک نعبد کے ترجمے کی جو صورت آپ نےذکر کی ہے وہ غلط ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved