• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نمازجنازہ کے بعد اجتماعی دعا،قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1)نماز جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟

2)قبرستان میں دعا کرتے وقت ہاتھوں کو اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)نماز جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر  اجتماعی دعا مانگنا جائز نہیں۔

2)قبرستان میں دعا مانگتے ہوئے ہاتھ اٹھانا جائز ہےالبتہ جس صورت میں دیکھنے والے کو قبر والے سے مانگنے کا شبہ پڑے اس صورت میں جب ہاتھ اٹھا  کر دعا کی جائے تو اس کا خیال رہے کہ سامنے قبر نہ ہو تاکہ دیکھنے والے کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ قبر والے سے مانگ رہا ہے۔

مرقاۃ المفاتیح (4/149)میں ہے:

ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة

حاشیہ بن عابدین(3/131 )میں ہے:

ومن آدابها أن يسلم بلفظ السلام عليكم على الصحيح لا عليكم السلام فإنه ورد السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ونسأل الله لنا ولكم العافية ثم يدعو قائما طويلا

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/164)میں ہے:

عن ابن مسعود قال والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر يقول أدنيا مني أخاكما وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده ثم خرج رسول الله وولاهما العمل فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه يقول اللهم إني أمسيت عنه راضيا فارض عنه وكان ذلك ليلا فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه

امداد الفتاوٰی (1/578)میں ہے:

سوال:قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا درست ہے یا نہ ؟

جواب :في رد المحتار آداب زيارة القبور ثم يدعو قائما طويلا

اس سے دعا کا جائز ہونا ثابت ہوا اور ہاتھ اٹھانا مطلقاً آداب دعا سے ہے پس یہ بھی درست ہوا۔

خیر الفتاوٰی( 3/157) میں ہے:

سوال:بعد دفن قبر پر دعاء مانگنے کے لیے قبر کے اردگرد کھڑے ہونا سنت ہے یا قبر کے ایک طرف ہٹ کر؟ ۲)دعاء مانگتے ہوئے ہاتھ اٹھانا کیسا ہے؟

جواب: دونوں طرح جائز ہے اور ایک موقوف حدیث میں "حول قبری” کے الفاظ ہیں جس سے اردگرد کھڑے ہونا معلوم ہوتا ہے ۔

ہاتھ اٹھانے ہوں تو قبر سے ہٹ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعاء کرے ورنہ بلا ہاتھ اٹھائے دعاء کرے۔ فتح الباری میں ہے:وفي حديث ابن مسعود رايت الخ

خیر الفتاوٰی( 3/168)میں ہے:

بعد دفن میت کھڑے ہو کر دعا کرنا کیسے مسنون ہے استغفار اور دعا کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ برفع یدین یا بلا رفع یدین جواز یا عدم جواز کا سوال نہیں بلکہ مسنون طریقہ بتائیں کیسے ہے؟

جواب:اصل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر دعا کی جائے۔

والسنة زيارتها قائما والدعاء عندها قائما كما كان يفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخروج الى البقيع

یہ محض دعا کے لئے ہے اور اگر وہاں کچھ دیر ٹھہر نا ہو جیسے کہ حدیث شریف سے اس کا استحباب معلوم ہوتا ہے تو پھر بیٹھ بھی سکتا ہے۔

كما في الدر المختار وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء و قراءة بقدر ما ينحر الجزور و يفرق لحمه و في الشامية لما في سنن ابي داؤد كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن المي ت وقف على قبره وقال استغفروا لاخيكم واسئلواالله له التثبيت فانه الان يسئل انتهى

وكان ابن عمر يستحب ان يقرأ على القبر بعد الدفن اول سورة البقرة وخاتمتها (شامى ١/٦٠١)

اور طحطاوی و مراقی میں بھی اس جلوس کی بایں الفاظ تعلیل کی گئی ہے

ويستحب للزائر قراءة يس (مراقى) و في الطحطاوى بعد أن يقعد لتادية القرآن على الوجه المطلوب بالسكينة والاتعاظ انتهى

اور یہ دعا استقبال قبلہ کی صورت میں بشرطيکہ  قبر سامنے نہ ہو تو رفع یدین کے ساتھ کر سکتا ہے ورنہ بغیر رفع یدین ہی دعا کرے اور رفع یدین کے ساتھ دعا کرنے والے سے الجھنا بھی نہیں چاہیے فقط واللہ اعلم

فتاوٰی محمودیہ( 9/145)میں ہے:

سوال :- میت کو دفن کرنے کے بعد فوراً قبر پر میت کیلئے دعا کرنا کیسا ہے؟ اگر درست ہے تو قبر کے پاس ہی یا الگ ہٹ کر نیز فاصلہ کی بھی اگر کہیں تصریح ہو تو تحریر فرمائیں۔

مفہوم حدیث:- نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ دعا کرو اپنے بھائی کے لئے اس کو قبرمیں دفن کرنے کے بعد اتنی دیر تک جتنی دیر نکیرین سوال کرتے ہیں کیونکہ اس عمل سے مردہ کو جواب دینے میں سہولت ہوتی ہے اور وہ نکیرین کے سوال سے گھبراتا نہیں ہے، یہ حکم عام تھا، یا خاص؟

دوسرے اگردعا مانگی جاوے تو ہاتھ اٹھا کر یا ایسے ہی؟ نیز گذشتہ سال دو طالب علموں کے دفن میں شرکت کا موقع ملا، لیکن کسی کو اجتماعی شکل میں دفن کے بعد دعا کرتے نہیں دیکھا، البتہ موجودہ حضرت شیخ الحدیث صاحب کو دیکھا گیا کہ دفن کے بعد قبر پر بیٹھے رہے۔

الجواب : میت کو دفن کرنے کے بعد ایصالِ ثواب نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ متعدد احادیث میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب فرمائی ہے، دفن کے بعد کسی جگہ کھڑے ہو کر کیا پڑھے، اس میں مختلف صورتیں ہیں۔ایک صورت یہ بھی ہے کہ دفن کے بعد میت کے قریب سرہانے ہوکر سورۂ فاتحہ یا سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات تااولٰئک ہم المفلحون پڑھے اور پیروں کیطرف کھڑے ہو کر سورۂ بقرہ کا آخری رکوع للّٰہ مافی السمٰوٰات والارض تا آخر پڑھے اور میت کو ایصالِ ثواب کر کے میت کیلئے سہولتِ سوال وجواب وتخفیف ہول قبرو اثبات علی الایمان کی دعا کرے۔

اخرج الطبرانی والبیہقی فی الشعب عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ قال سمعتُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول اذا مات احدکم فلا تحبسوہ واسراعوا بہٖ الی قبرہٖ ویقرأ عند رأسہ فاتحۃ الکتاب ولفظ البیہقی فاتحۃ البقرۃ وعند رجلیہ بخاتمۃ البقرۃ فی قبرہٖ شرح الصدور ص:۶۸۔

یستحب الوقوف بعدا لدفن قلیلاً والدعاء للمیت مستقبلاً وجہہ بالثبات۔ شرح الصدورص:۶۹۔

اس سلسلہ میں قبر پر دعا کیلئے ہاٹھ نہ اُٹھانابہتر ہے، اورجہاں کہیں کسی غلط فہمی کا اندیشہ  نہ ہو تو ہاتھ اٹھا کردعا کرنے میں مضائقہ بھی نہیں، لیکن اس صورت میں رخ قبلہ کی طرف کرے وفی حدیث ابن مسعودؓ رأیتُ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ فی قبر عبد اللّٰہ ذی البجادین الحدیث وفیہ لما فرغ من دفنہ استقبل رافعاً یدیہ۔ اخرج ابوعوانہ فی صحیحہٖ فتح الباری۱؂ ص:۲۲۱، ج:۱۱۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

فتاوٰی محمودیہ( 9/147)میں ہے:

سوال :- میت کو دفن کرنے کے بعد جو دعاء مغفرت کی جاتی ہے، وہ ہاتھ اٹھا کر کی جائے یا بغیر ہاتھ اٹھائے۔

الجواب:دعا بغیر ہاتھ اٹھائے بھی کی جاسکتی ہے، اورہاتھ اٹھا کر بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دفن کے بعد قبلہ کی طرف رُخ فرما کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، اگر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا چاہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے قبر کی طرف رخ نہ کیا جائے بلکہ قبلہ کی طرف رخ کر لیا جائے: وفی حدیث ابن مسعودؓ رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قبر عبد اللّٰہ ذی البجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبلالقبلۃ رافعا یدیہ اخرجہ ابوعوانۃ فی صحیحہ ۱ہـ فتح الباری شرح بخاری ص:۱۲۲، ج:۱۲۔ فقط واللہ سبحانہٗ تعالیٰ اعلم

فتاوٰی محمودیہ( 9/149)میں ہے:

دفن کے وقت اگر بتی جلانا بعد دفن دعا کرناسوال :- قبرستان میں اگر بتی لوبان جلانا کیسا ہے، قبر پردونوں ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا کیسا ہے؟

الجواب :قبرستان میں اگربتی اورلوبان جلانا نہیں چاہئے، میت کو غسل دیتے وقت اسکے تختے کو دھونی دینا درست ہے، جس پر غسل دیا جائے، نیز کفن کودھونی دیکر میت کو پہننایا جائے۔ باقی قبر پرثابت نہیں ہے، بدعت اور منع ہے، بہتر یہ ہیکہ بغیر ہاتھ اٹھائے فاتحہ پڑھی جائے، اگر ہاتھ اٹھانا ہو تو قبر کی طرف پشت کرے اورقبلہ کی طرف رُخ کرے، ایسا کرنا حدیث شریف سے ثابت ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

فتاوٰی عثمانی( 1/276) میں ہے:

سوال: صلوۃ جنازہ کے متصل بعد دعا  ثابت نہیں، مسلم ہے اور بعد الدفن دعاء مسنون ہے مگر وضاحت طلب امر یہ ہے کہ بعد الدفن اور بعد پڑھنے سورۂ بقرہ کا اول اور آخر، جو دعاء کی جاتی ہے آیا اس میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنی چاہئے یا ہاتھ چھوڑ کر؟ قبل ازیں تو دعاء کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے کراتے رہے مگر حضرت مولانا خیر محمد صاحب مرحوم کی نماز حنفی مترجم نظر سے گزری جس میں درج ہے کہ بغیر ہاتھ اٹھائے دعاء کرنی چاہئے، جبکہ اس کے مقابل حافظ ابن حجرؒ نے صحیح ابی عوانہ سے فتح الباری ص۱۲۲ ج۱۱ میں حدیث عن ابن مسعود رایت رسول اللہ ﷺ فی قبر عبداللہ ذی البجادین، الحدیث و فیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعاء فرمائی ہے۔ جو بات سنت یا مستحب ہو بحوالہ کتب ارشاد فرمادیں کہ آیا بعد الدفن ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنی چاہئے یا چھوڑ کر؟

جواب: قبرستان میں قبلہ رو ہونے کی صورت میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا آنحضرت ﷺ سے ثابت اور جائز ہے۔ صحیح مسلمؒ میں لیلۃ البرائۃ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

حتی جاء البقیع فقام فاطال ثم رفع یديه ثلاث مرات۔ (ص۳۱۳ ج۱ قبیل کتاب الزکوٰۃ)

اس کے تحت علامہ نوویؒ لکھتے ہیں: فیہ استحباب اطالۃ الدعاء و تکریرہ و رفع الیدین فیہ، اور حنفیہ کے اصولوں پر بھی مسئلہ یہی ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیمؒ لکھتے ہیں: و یکرہ عند القبر کل ما لم یعھد من السنۃ و المعھود منھا لیس الا زیارتھا و الدعاء عندها قائما کما کان یفعل ﷺ فی الخروج الی البقیع۔

اور اوپر گزر گیا کہ بقیع میں آپ ﷺ سے رفع یدین ثابت ہے۔ اس کے علاوہ صحیح ابو عوانہؒ کی جو حدیث آپ نے نقل فرمائی ہے وہ فتح الباری کی کتاب الاستیذان باب الدعاء مستقبل القبلۃ کے تحت حافظؒ نے نقل کی ہے اور اس پر سکوت کیا ہے، وہ بھی اس کی دلیل ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی پر فتوی دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: فی رد المحتار آداب زیارۃ القبور ثم یدعوا قائما طویلا ، اس سے دعاء کا جائز ہونا ثابت ہوا اور ہاتھ اٹھانا مطلقاً آداب دعاء سے ہے یہ بھی درست ہوا۔ (امداد الفتاوی) لہٰذا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ رفع یدین جائز ہے، البتہ اکابر دیوبند کا عام معمول ترک رفع کا رہا ہے جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ہندوستان میں قبر پرستوں کی کثرت تھی جو صاحب قبر سے دعائیں مانگتے تھے۔ ان کے ساتھ تشبیہ سے پرہیز کیلئے وہ ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کر لیتے تھے لیکن کسی نے رفع یدین کو ناجائز بھی نہیں کہا، بلکہ بعض مستند علماء دیوبند کو احقر نے خود ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے دیکھا ہے، لہٰذا حضرت مولانا خیر محمد صاحبؒ نے جو بات لکھی ہے وہ مبنی بر احتیاط ہے ، رفع یدین کے ناجائز ہونے کے بناء پر نہیں۔ ھذا ما عندی و اللہ سبحانہ اعلم

فتاویٰ رحیمیہ( 2/247)میں ہے:

(سوال ۸۴) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ تدفین کے بعد اور قبروں کی زیارت کے وقت قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا ہے ؟ بینوا توجروا۔

(الجواب)قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ممنوع نہیں ہے بلکہ مندوب ہے کیونکہ آداب دعا میں ہاتھ اٹھانا بھی ہے اور حضور اقدس ﷺ سے ثابت ہے ، مسلم شریف میں ہے۔ حتی جاء البقیع فقام فاطال القیام ثم رفع یدیہ ثلث مرات وفی النووی(قولھا حتی جاء البقیع فاطال القیام ثم رفع یدیہ ثلث مرات) فیہ استحباب اطالۃ الدعاء وتکریرہ ورفع الیدین الخ(مسلم شریف مع شرحہ للنووی ج ۱ ص ۳۱۳ کتاب الجنائز) اس حدیث میں تصریح ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جنت البقیع میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہے نیز ابو عوانہ کی حدیث جس کی تخریج حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرمائی ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ تدفین کے بعد حضور اکرم ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے ۔ وفی حدیث ابن مسعود رضی اﷲ عنہ رأ یت رسول اﷲ ﷺفی قبر عبداﷲ ذی البجاد ین وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعا یدیہ اخرجہ ابو عوانۃ فی صحیحہ (فتح الباری شرح بخاری ج۱۱ ص ۱۲۲)حضرت عبداﷲ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو عبداﷲ ذی البجادین ؓ کی قبر پر دیکھا ہے، جب ان کے دفن سے فارغ ہوگئے تو آنحضرت ﷺ قبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔

اورفقہاء کی عبارت سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اجازت معلوم ہوتی ہے ۔ لان السکوت فی معرض البیان بیان ۔ البتہ قبر سامنے ہو اور صاحب قبر سے استمداد کا شبہ ہو تو ہاتھ اٹھانا ممنوع ہے ۔

حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :۔

(سوال )قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست ہے یا نہ؟

(الجواب)فی رد المختار آداب زیارۃ القبور ثم ید عوقائماً طویلاً اس سے دعا کا جائز ہونا ثابت ہوا اور ہاتھ اٹھانا مطلقاًآداب دعا سے ہے پس یہ بھی درست ہوا(امداد الفتاوی ج۱ ص ۴۷۶ مطبوعہ کراچی پاکستان)

مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ صاحب نور اﷲ مرقدہ‘ کافتویٰ:۔

(سوال ) کسی مزارپر ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

(الجواب)مزار پر ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا مباح ہے ۔ مگر بہتر یہ ہے کہ یاتو مزار کی طرف منہ کر کے بغیر ہاتھ اٹھائے فاتحہ پڑھے یا قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھ لے ،فاتحہ سے مراد یہ ہے کہ ایصال ثواب کی غرض سے کچھ قرآن مجید پڑھ کر اس کا ثواب بخش دے اور میت کے لئے دعائے مغفرت کرے، صاحب قبر سے مرادیں مانگنا حاجتیں طلب کرنا یا ان کی منتیں ماننا یہ سب ناجائز ہے ۔(کفایت المفتی ج۴ ص ۱۸۳) ۱۱۔ربیع الاول ۱۴۰۰؁ھ۔فقط واﷲ اعلم بالصواب۔

فتاوٰی رحیمیہ( 7/89)میں ہے:

(سوال ۸۱)کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ قبرستان میں دعاء کے وقت ہاتھ اٹھانا مسنون ہے یا بدعت ؟ دعاء کھڑے کھڑے کی جائے یا بیٹھ کر اور قبلہ رخ ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟حدیث سے کیا ثابت ہے؟

(الجواب) قبرستان میں بحالت قیام قبلہ رخ ہو کر اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا آداب میں سے ہے اور مسنون ہے بدعت نہیں ہے ۔حضورﷺ کے متعلق حدیث میں ہے ۔ جاء البقیع فاطال القیام ثم رفع یدیہ ثلاث مرات(صحیح مسلم ص ۳۱۳ ج۱ کتاب الجنائز باب الذھاب الی زیارۃ القبور)فیہ استحباب اطالۃ الدعاء وتکریرہ ورفع الیدین وفیہ ان دعاء القائم اعلیٰ من دعاء الجالس فی القبور (نووی شرح مسلم ص ۳۱۳ ج۱ ایضاً)واذا اراد الدعأ یقوم مستقبل القبلۃ کذا فی خزانۃ الفتاویٰ (عالمگیری ص ۳۵۰ ج۵ کتاب الکراھیۃ الباب السادس عشر فی زیاۃ القبور و قرأ ۃ القرآن فی المقابر)حافظ بدر الدین عینی بنایہ میں فرماتے ہیں ۔ لا یقعد الزائر و عند الدعاء للمیت لیستقبل القبلۃ یعنی زائر قبور کے لئے ادب یہ ہے کہ نہ بیٹھے او رمیت کے لئے دعا کے وقت قبلہ رخ ہوجائے ۔فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے۔ وفی حدیث ابن مسعودؓ رأ یت رسول اﷲ ﷺفی قبر عبداﷲ بن ذی البجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ اخرجہ ابو عوانۃ فی صحیحہ (ص۱۲۲ج۱۱۱ باب الدعآء مستقبل القبلۃ) دوسرے رخ پر اور بیٹھے ہوئے اور بلا ہاتھ اٹھائے ہوئے بھی دعا جائز ہے ۔ دعا کے وقت ایسی ہئیت اختیار نہ کی جائے کہ دیکھنے والے کو شبہ ہو کہ اہل قبر سے حاجت طلب کررہا ہے اس لئے جب ہاتھ اٹھا کر دعا کرے تو قبر کی طرف منہ نہ ہونا چاہئے۔ فقط واﷲ اعلم بالصواب۔

کفایت المفتی جلد( 4/60)میں ہے:

(سوال ) (۳)دفن کے بعد قبرستان میں فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت ہاتھ اٹھا کر پڑھنی چاہئیے یا نہیں؟

(جواب ۴۵) (۳) دفن کے بعد میت کے لئے دعائے مغفرت کرنی جائز ہے مگر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی لازم نہیں خواہ ہاتھ اٹھائے یا نہ اٹھائے دونوں جائز ہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved