- فتوی نمبر: 16-216
- تاریخ: 15 مئی 2024
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال : نماز میں قرات کرتے ہوئے ظ کی جگہ ض پڑھ دیا تو نماز فاسد تو نہیں ہوگی؟جیسے سورۃ مرسلٰت میں انطلقوا الی ظل ذی ثلث شعب میں ضل اور لا ظلیل ولا یغنی میں ضلیل پڑھ دیا ، اور سورۃ قمر میں کل شرب محتضر میں ض کی جگہ ظ اور اگلی آیت میں کہشیم المحتظر میں ظ کی جگہ ض پڑھ دیا۔
وضاحت مطلوب ہے:کیا قاری صاحب ظ اور ض کو انکے اپنے اپنے مخرج سے پڑھنے پر قادر ہیں؟
جواب وضاحت:جی قاری صاحب ظ اور ض کو انکے اپنے اپنے مخرج سے پڑھنے پر قادر ہیں،لیکن غلطی سے پڑھ دیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
.نماز میں غلطی سے ظ کی جگہ ض پڑھ دیا یا اسکے برعکس پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوگی۔
ابن عابدین میں ہے:477/2
قوله(الا ما يشق) قال فى الخانية الاصل فيما ذكر حرفا مكان حرف و غير المعنى ان امكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد و الا يمكن الا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين قال اكثرهم لاتفسد.وهو المختار. و في خزانة الاكمل قال القاضى أبو عاصم ان تعمد ذلك تفسد.و ان جرى على لسانه او لايعرف التمييز لاتفسد.وهو المختار.
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:82/4
اگر خطاء سے ضاء معجمہ کی جگہ ظاءمعجمہ پڑھی گئی تو بقول اکثر نماز صحیح ہے۔لیکن اگر قصدا ضاد کی جگہ ظاء یا زاء پڑھی جائے تو قاضی ابو عاصم فرماتے ہیں کہ نماز اسکی فاسد ہے۔اور اسی کو مختار کہا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved