- فتوی نمبر: 7-326
- تاریخ: 29 نومبر 2005
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
محترم مفتی صاحب! آپ کا جواب موصول ہوا، جزاکم اللہ خیرا
گذارش یہ ہے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ نے مذکورہ حدیث مبارکہ کے بعد جو کلام کیا ہے وہ یہ ہے:
’’کذا في مجالس الابرار، قلت: لم أجده فی ما عندي من کتب الحدیث الا أن مجالس الأبرار مدحه شیخ مشائخنا الشاه عبد العزیز الدهلوي رحمه الله.
اب اس کلام میں دیکھیں کہ سند پر کیا کلام ہوا ؟
مجالس الابرار کا جو نسخہ دستیاب ہے اس میں مذکورہ حدیث کی سند ہی مذکور نہیں ہے، جیسا کہ فضائل اعمال میں بھی بغیر سند کے مذکور ہے۔
تو جب اس حدیث کی سند ہی نہیں ملتی تو پھر اسے حضور اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا کیسے درست ہو گا؟ حال یہ ہے کہ خود حضرت شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ فرما رہے ہیں کہ مجھے کسی اور حدیث کی کتاب میں نہیں ملی۔
امید ہے کہ غور فرمائیں گے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
محترم و مکرم!
آپ کے ارسال کردہ سابقہ سوالنامے کا اصل منشا ہم یہ سمجھے کہ مذکورہ حدیث آپ کے خیال میں قواعدِ شرعیہ کے متضاد ہے۔ اس لیے آپ کو اس کی اسنادی حیثیت معلوم کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
اس لیے ہم نے اپنے جواب میں اصل توجہ اسی پر رکھی کہ اس حدیث کا مضمون قواعد شرعیہ کے متضاد نہیں۔ اور اس کی وجہ بھی بیان کردی۔ اور ہم یہی سمجھے کہ شاید اس جواب کے بعد آپ کو اس حدیث کی اسنادی حیثیت معلوم کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ رہے گی۔ تاہم چونکہ اسنادی حیثیت کے بارے میں بھی آپ کا سوال تھا، اس لیے اجمالاً اس کے جواب کی طرف بھی اشارہ کر دیا تھا، کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ نے جو کلام اس حدیث پر کیا ہے، اسے دیکھ لیا جائے، و ہ کافی ہے۔
لیکن آپ کے حالیہ سوالنامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو آپ نے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی عبارت پر پورا غور نہیں فرمایا، یا حضرت رحمہ اللہ جو فرمانا چاہ رہے ہیں، آپ اسے صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے۔
ہمارے خیال میں حضرت شیخ رحمہ اللہ یہ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ اگرچہ یہ حدیث مجھے اپنے پاس موجود کتب حدیث میں (نہ کہ تمام کتبِ حدیث میں جیسا کہ آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے) نہیں مل سکی۔ لیکن مجالس الابرار ایک معتبر کتاب ہے، جس کے معتبر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کتاب کی تعریف فرمائی ہے۔ اور اس حدیث کے مضمون کی تائید "من ترك الصلاة متعمداً فقد كفر” وغیرہ متعدد احادیث سے بھی ہو رہی ہے۔ لہذا ایسی حدیث کو ترغیب و ترہیب کے لیے بیان کرنے میں کوئی علمی اشکال نہیں۔
جب کوئی حدیث کسی معتبر کتاب میں موجود ہو، اگرچہ بغیر سند ہی کے ہو، اور اس کو بیان بھی ترغیب و ترہیب میں کیا جا رہا ہو، اور وہ حدیث قواعد شرعیہ کے معارض بھی نہ ہو، بلکہ "من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر" و غیرہ احادیث سے اس کے مضمون کی تائید بھی ہوتی ہو۔ اور اس کو بیان کرنے والا بھی اپنے وقت کا محدث، حدیث و اصول حدیث پر گہری نظر رکھنے والا ہو۔ تو ایسی صورتحال میں آپ کے خیال میں اس بارے میں کوئی علمی اشکال ہو تو اسے کھول بیان کریں تاکہ اس پر پورا غور کیا جا سکے۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved