• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ناپاکی کی صورت میں ناک اور منہ میں پانی پہنچانا

  • فتوی نمبر: 4-316
  • تاریخ: 07 دسمبر 2011

استفتاء

اگر کوئی انسان ناپاکی کی حالت میں یا حیض  و نفاس کی حالت میں مرجائے تو میت کو غسل دینے میں منہ اور ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے یا نہیں؟ یا معمول کے مطابق روئی تر کر کے دانتوں اور مسوڑھوں پر اور ناک کے دونوں سوراخوں میں پھیر دی جائے تو بھی جائز ہے؟اس بارے میں ” اردو فتاویٰ جات” سے دو  رائے معلوم ہوتی ہیں۔

پہلی رائے: حضرت****ہ نے ” بہشتی زیور” میں ( نہلانے کے باب میں ) اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ اگر مردہ ناپاکی کی حالت میں یا حیض و نفاس کی حالت میں مر جائےتو منہ اور ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔ (162

اور ان کی متابعت میں ڈاکٹر ****ہ نے بھی یہی مسئلہ” احکام میت” میں ذکر کیا ہے۔ ( احکام میت : 35 )

اور بظاہر ان حضرات کی بنیاد مندرجہ ذیل عبارات ہیں:

"ولو كان جنبا أو حائضاً أو نفساء فعلا اتفاقاً تتميماً للطهارة كما في امداد الفتاح مستمسكا من شرح المقدسي”.(الدر المختار: 2/ 146)

(إلا أن يكون جنباًأو حائضاً أو نفساء فيكلف غسل فمه و أنفه تتميماً لطهارته.(حاشیہ طحطاوی: 568)

دوسری رائے: حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب نورا اللہ مرقدہ  ” احسن الفتاویٰ” میں تحریر فرماتے ہیں:

” کہ حالت جنابت یا حیض و نفاس میں موت واقع ہوتو بھی غسل دیتے وقت  منہ اور ناک میں پانی ڈالنا درست نہیں البتہ دانتوں اور ناک میں تر کپڑا پھیر دیا جائے تو بہتر ہے ضروری نہیں”۔ بحوالہ شامی (احسن الفتاویٰ 4/ 248 )

اور "عمدة الفقہ” میں حضرت مولانا زوار حسین صاحب رحمہ اللہ نے بھی اس بات کی صرحت کی ہے:

” لیکن صحیح یہ ہے کہ جنب اور حیض و نفاس کی حالت میں مرنے والے کے منہ اور ناک میں بھی پانی پہنچانا ضروری نہیں کیونکہ وہ عذر و علت ان کے حق میں بھی موجود ہے  اور  اس حکم کی مقتضی ہے متون و شروح و فتاویٰ میں یہ حکم یعنی کلی اور ناک میں پانی نہ ڈالنا مطلق طور پر آیا ہے جو ان تینوں کو بھی شامل ہے کذافی الشامی”۔ عمدة الفقہ : 2/ 488 )

ان حضرات کے مسئلہ کی بنیاد ” فتاویٰ شامیہ " کی عبارت ہے جو کہ درجہ ذیل ہے:

” نقل أبو سعود عن شرح الكنز للشلبي أن ما ذكر الخلخالي أي في شرح القدوري من أن الجنب يمضض و يستنشق غريب مخالف لعامة اللكتب . قلت هو قال الرملي أيضا في حاشية البحر إطلاق المتون و الشروح و الفتاوى يشمل من مات جنباً و لم أر من صرح به لك  الإطلاق يدخله و العلة  تقتضيه. و ما نقله أبو سعود عن الزيلعععي من قوله بلا مضمضة و استنشاق و لو جنباً صرح في ذلك لكني لم أره  في الزيلعي ( قوله اتفاقاً ) لم أجده في الامداد و لا في شرح المقدسي”. (2/ 306)

فتاویٰ شامیہ کے علاوہ مندرجہ ذیل  عبارت بھی اسی دوسری رائے کی مؤید  معلوم ہوتی ہیں:

1۔ ( إلا أن يكون جنباً) هذا ما زكره الخلخالي و هو غريب مخالف لعامة الكتب كما في الشلبي على الكنز  والذي في التبيين أن الجنب كغيره و ما في شرح السيد من أن ما ذكره الخلخالي مخالفاً لغيره مخرج على …. في الشهيد إذا كان جنباً فإنه يغسل عند الإمام و ما ذكره غيره مخرج على قول الصاحبين و هو الذي في عامة الكتب فيه نظر: لأن الكلام هنا في المضمضة و الاستنشاق لا في الغسل و الفرق أنه لا حرج فيه بخلافهما و قد عرفنا غسل الشهيد الجنب بالنص وهو تغسل الملائكة حنظلة بن راهب حين استشهد وهو جنب فقال النبي صلى الله عليه  وسلم ( رأيت الملائكة تغسل حنظلة بن أبي عامر بين السماء  وا لأرض بماء المزن في صحائف الفضة ) و لم يذكر فيه المضمضة و الاستنشاق فانصرف إلى المعهود في غسل الميت و هو الغسل بدونها فتأمل  أفاده بعض الأفاضل. (حاشيہ طحطاوی علی  مراقی الفلاح: 568 )

2۔ علامہ شامی رحمہ اللہ کی عبارت ” منحتہ الخالق علے بحرالرائق” میں ملاحظہ ہو:

( غير أن إخراج الماء متعذر ) قال في البدائد إلا أن الميت لا يمضمض و  لا يستنشق لأن ادارة الماء في فم الميت غير ممكن ثم يتعذر إخراجه من الفم إلا بالكب  و أنه مثلة مع أنه لا يتومن أن يسيل منه شيء لو فعل  ذلك به و كذا الماء لا يدخل الخياتيم إلا بالجذب بالنفس و ذا غير متصور من الميت و لو كلف الغاسل بذلك لو قع في الحرج. (سعيد: 2/ 172 )

3۔  اور ” محیط البرہانی” کی عبارت ملاحظہ ہو:

إلا أنه ل يمضمض و لا يستنشق و هذا نص في الباب و لأنه يتعذره عليهم إخراج الماء من فيه فيكون سقياً لا مضمضة  و لو كبوه على وجهه ربما يخرج من جوفه ما هو نتن منه فيكو اخبت من فمه.(2 / 282 )

” حلبی کبیری " کی عبارت ملاحظہ ہو:

قلنا المضمضة إدارة الماء في داخل الفم حتى يبلغ جميع بشرته ثم إخراجه وا لاستشاق إدخاله في الأنف و جذبه بالنفس إلى الخياتيم ثم نثره و ذلك متعذر في حقه و المسكة زائلة فالغالب الذي هو كالمحقق أن الماء  يسبق منهما إلى حلقه فيكون إيجاراً اسعاطا لا مضمضمة و استشاقاً. (497)

” فتاویٰ شامیہ "کی ایک عبارت ملاحظہ ہو:

لكن المناسب أن يقول كالقراءة عند الجنب لأن حدث الموت موجب للغسل فهو اشبه بالجنابة و إن لم يكن جنابة. (2 / 194 )

پس اس آخری عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل غسل واجب ہونے کا سبب موت ہے جو جنبی اور غیر جنبی سب کو شامل ہے لہذا جب حرج  اور دیگر علل کی بناء پر مضمضہ اور استنشاق غیر جنبی میت کے حق میں ساقط ہوگیا تو جنبی میت کے میں بھی ساقط ہوناچاہیے۔برائے مہربانی اس مسئلہ کے متعلق اپنی قیمتی رائے  اور قول راجح کی تحقیق سے مطلع فرما کر ممنون فرمائیں۔  محمد عمران

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مولانا تھانوی رحمہ اللہ  نے جنبی اور حائض و نفسا ءکے لیے منہ اور ناک میں پانی پہنچانے کو ضروری نہیں لکھا جیسا کہ  آپ نے ذکر کیا ہے۔ بلکہ جنبی اور حائضہ و نفساء کے منہ اور ناک میں تر روئی پھیرنے کو ضروری  لکھا ہے۔ چنانچہ بہشتی زیور کی عبارت یہ ہے:

"پھر اس کو وضو کرا دو لیکن نہ کلی کراؤ نہ ناک میں پانی ڈالو۔ اور اگر تین دفعہ روئی تر کر کے دانتوں  اور مسوڑھوں پر پھیر دی جائے تب بھی جائز ہے۔ اور اگر مردہ نہانے کی حاجت میں یا حیض  و نفاس میں مرجائے تو اس طرح سے منہ اور ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے”۔ (2/ 53 )

اور مولانا تھانوی کے اس مسئلے کا مدار در مختار کی یہ عبارت ہے:

و يوضأ بلا مضمضة  واستنشاق للحرج و قيل يفعلان بخرقة و عليه العمل اليوم و لو كان جنباً أو حائضاً أو نفساء فعلا اتفاقاً تتميماً للطهارة.(3/ 102 )

اس عبارت میں صاحب در مختار نے جس چیز کو اتفاقا کہا ہے وہ مضمضہ و استنشاق بخرقہ ہے۔ نہ کہ مطلق مضمضہ و استنشاق۔ کیونکہ غیر جنبی میں پہلے قیل کے ذریعے اسی مضمضہ و استنشاق کو بیان فرمایا ہے۔ اور پھر جنبی وغیرہ کے لیے اسی مضمضہ و استنشاق کو بالاتفاق فرما رہے ہیں۔ البتہ علامہ شامی رحمہ اللہ و  دیگر حضرات نے” فعلا اتفاقاً” سے مطلق مضمضہ و استنشاق سمجھا اور  پھر اس کی تردید کی ۔ لیکن درمختار کی عبارت کا جو مطلب مولانا تھانوی ذکر فرما رہے ہیں اس کی تردید ان حضرات نے نہیں کی۔ بلکہ ان حضرات کی عبارتیں اس سے خاموش ہیں۔ اس لیے مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے ذکر کردہ مسئلہ میں اور دیگر حضرات کے ذکر کردہ مسئلہ میں کوئی تعارض نہیں۔ البتہ فہم عبارت کا اختلاف ضرور ہے۔

ہمارے خیال میں جو مطلب مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے وہ راجح ہے۔ کیونکہ مطلق مضمضہ و استنشاق کے ممنوع ہونے کی جو علتیں ان حضرات نے ذکر فرمائیں ہیں ( یعنی پانی کا نکالنا متعذر ہے) وہ علتیں روئی یا کپڑا ترکر کے تین دفعہ ناک یا منہ میں پھیر نے کی صورت میں نہیں پائی جاتیں۔ البتہ مفتی رشید احمد رحمہ اللہ  کا ذکر کردہ مسئلہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے ذکر کر دہ مسئلے کے معارض ہے کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ تو تر روئی کے پھیرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ  اسے صرف بہتر قرار دیتے ہیں۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ مفتی رشید احمد صاحب  رحمہ اللہ نے احسن الفتاویٰ میں اپنے اس مسئلے کی جو دلیل کے طور پر جو عبارت ذکر کی ہے ، وہ وہی عبارت ہے جو درمختار کے حوالے سے گذر چکی ہے، اور اس عبارت کے بارے میں پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ وہ مطلق مضمضہ و استنشاق کی نفی پر تو دلیل ہے، لیکن مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے مضمضہ و استنشاق کی جس صورت کو ضروری قرار دے رہے ہیں اس کی نفی پر دلیل نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved