- فتوی نمبر: 17-274
- تاریخ: 17 مئی 2024
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک آدمی فوت ہوگیاہے اوراس آدمی کابیٹا اپنے مال سے اپنے باپ کی طرف سے باقی نمازوں اورروزوں کا فدیہ دینا چاہ رہا ہے ۔تو کیا یہ فدیہ اس فوت ہونے والے کے نواسے کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں میت کے نواسے کو فدیہ دینے سے احتیاط کریں۔
توجیہ:اس بارے میں کوئی صریح عبارت نہیں مل سکی البتہ اصولی طور پر اس میں دو پہلو ہیں :
- ایک پہلو یہ ہے کہ چونکہ مرحوم نے وصیت بھی نہیں کی اور وارث دے بھی اپنے مال سے رہا ہے، اس لیے اس فدیہ کی حیثیت ایک نفلی صدقہ کی ہےاور نفلی صدقہ مرحوم کے نواسے کو بھی دیا جاسکتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں مرحوم کے نواسے کو فدیہ کی رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ رائے حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ کی ہے۔
2.دوسراپہلو یہ ہے کہ اگرچہ مذکورہ صورت میں وارث پر فدیہ دینا واجب نہیں لیکن اگر وہ دیدے تو یہ فدیہ ہی شمار ہوگا اور اس پر فدیہ کےہی احکام جاری ہوں گے، جیسے نفلی نماز اگرچہ واجب نہیں لیکن اگر کوئی نفل نماز پڑھے تو اس کی بھی وہی شرائط ہوں گی جو فرض نماز کی ہیں یاجیسے عقیقہ کہ اگرچہ واجب نہیں، لیکن اس کے احکام بھی مثل قربانی کے ہیں ، اس پہلو کے لحاظ سے مذکورہ صورت میں یہ فدیہ مرحوم کے نواسے کو نہیں دیا جاسکتا۔
یہ رائے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے اور اس میں احتیاط بھی ہے۔
ان دونوں حضرات کی رائے ان کے مندرجہ ذیل فتووں میں مذکورہے۔
حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحدؒ صاحب کا فتوی ہے:
تبویب میں (فتوی نمبر 398/9)میں :
’’زید کی زندگی کی کئی سالوں کی نمازیں رہتی تھیں۔ مرنے سے قبل زید نے وصیت کی کہ میرے نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔ مگر ترکہ میں اتنا مال نہیں جس کے تہائی بلکہ مکمل سے بھی فدیہ ادا کیا جا سکے۔ ورثاء میں سے ایک وارث یہ فدیہ اپنی جیب سے ادا کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ فدیہ وہ وارث اپنے بھائی بہن یعنی میت کی اولاد کو دے سکتا ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
دے سکتا ہے جبکہ اس کے بھائی بہن زکوٰۃ کے مستحق ہوں کیونکہ وارث اپنے مال میں سے دے رہا ہے میت کے مال میں سے نہیں۔ میت کی طرف سے تبرعاً دے رہا ہے کیونکہ وجوب میت پر تھا اور وجوب دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔(حضرت ڈاکٹرمفتی) عبدالواحد(صاحب)غفرلہ
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا فتوی
امداد الفتاوی (132/2)میں ہے:
حکم دادن کفارہ نماز میت بہ ہاشم
سوال:فوت شدہ نمازوں کے کفارے کے مصرف میں ایک شبہ پیدا ہوا ہے کہ اگر مرحومہ وصیت کر جاتی تب توثلث مال سے اس کا نکالنا واجب ہوتا اور یہ کفارہ صدقہ واجبہ میں شمار ہو کر مثل زکوۃ وعشر وصدقہ فطر وکفارہ صوم ہاشمیوں کو نہ دینا چاہیے تھالیکن جب کہ وصیت نہ تھی تو یہ فعل تبرع ہوا اور یہ صدقہ نافلہ ہوا لہذا مثل دیگر صدقات نافلہ کے ہاشمیوں کو دینا جائز ہونا چاہیے؟
میں نے اس مسئلہ کو تلاش کیا کہیں نہیں ملا ۔بہشتی زیور کی عبارت سے کہ اگرکفارہ نکالیں تو اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول فرما لیں اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ کفارہ تبرع ہے؟
الجواب:بالکل تبرع ہے اور اس کا مقتضیٰ ظاہرا بے شک یہی ہے کہ بنی ہاشم کے لیے جائز ہو مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود فدیہ کے احکام لازمہ سے یہ ہے کہ بنی ہاشم اس کا مصرف نہ ہوں اور راز اس میں یہ ہے کہ گویہ تبرع ہے مگر ملحق ہے واجب کے ساتھ بوجہ فدیہ ہونے کے ،ورنہ اس میں اس اثر کی امید نہ ہوگی جوفدیہ میں ہے، پس اس کی مثال نفل نماز کی ہوگی کہ وضو وغیرہ اس کے لئے بھی شرط ہے اس کی نظیر فقہاء کے کلام میں یہ ہے کہ عقیقہ کے احکام مثل مسائل قربانی کے لکھے ہیں، حالانکہ عقیقہ واجب نہیں بلکہ خود قربانی ہی اگر نفل ہو اس کے بھی وہی احکام اور شرائط ہیں جو واجب کے ہیں۔ غور فرمایا جائے، دوسرے علماء سے بھی مراجعت مناسب ہے۔فقط
امداد الفتاوی کے مسئلہ کی تائید کفایت المفتی کے مندرجہ ذیل فتوے سے بھی ہوتی ہے۔
کفایت المفتی(183/4) میں ہے:
سوال:میت نے نماز روزہ وغیرہ کے متعلق کوئی وصیت نہ کی ہو اور کوئی وارث اپنی طرف سے اس کا فدیہ ادا کرے تو کیا حکم ہے؟اس فدیہ کے مستحق کون لوگ ہیں؟کیا ایسے مال کو مسجد وغیرہ میں لگایا جاسکتا؟
جواب:میت نے فدیہ نماز وغیرہ کے متعلق وصیت نہ کی ہو اور وارث اپنے طور پر اپنے مال میں سے دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور اس کے مستحق فقراء و مساکین ہیں، صدقات واجبہ کا جو حکم ہے وہی اس کا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved