• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح، طلاق اور میراث کے متعلق سوالات

استفتاء

میں نے  تین طلاق کا مسئلہ آپ کے ادارے سے لیا تھا جس کا فتویٰ نمبر 29/353 ہے جس کے مطابق  میری بیوی کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں لہٰذا اس کے پیش نظر آپ سے مزید سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔طلاق کے بعد کیا میری بیوی کا میرے گھر میں رہنا جائز ہے؟ میرے گھر میں رہ کر اخراجات کا مطالبہ کرنا میرے گھر میں رہ کر کھانا پینا جائز ہے؟

2۔والد اپنی حیات میں اپنے کسی ایک بچے کے نام اپنی جائیداد وصیت کر سکتا ہے یا نہیں؟

3۔طلاق کے بعد بھی بیوی اپنے شوہر سے جائیداد میں سے اپنے حصے  کا مطالبہ کر سکتی ہے یا نہیں ؟

4۔میری بیوی مجھ سے 35 تولے زیور کا مطالبہ کرتی ہے جوکہ میں نے بالکل نہیں لیا اور نہ ہی میرے علم میں ہے۔

5۔میرے بچے مجھ سے جائیداد میں اپنا حصہ مانگتے ہیں جو کہ میری محنت اور مزدوری سے بنائی گئی ہے اور اس وجہ سے مجھے برا بھلا کہتے ہیں دھمکیاں اور گالم گلوچ دیتے ہیں کیا میرے بچوں کا میری زندگی میں جائیداد میں حصہ بنتا ہے؟  یعنی جب تک میں زندہ ہوں ۔

6۔کیا میں  شرعادوسرا نکاح کر سکتا ہوں؟

سونے سے متعلق میاں ، بیوی کا بیان

شوہر کا بیان :

میں نے دو دفعہ سونا بکوایا تھا ایک دفعہ ڈھائی لاکھ کا اور ایک دفعہ دو لاکھ 75 ہزار کا اس میں میری انگوٹھی 48 ہزار کی بھی شامل تھی جو میری ذاتی تھی یہ آج سے تقریبا 15 سال پہلے کی بات ہوگی یہ سونا میں نے خود نہیں بیچا تھا کیونکہ مجھے کیرٹ وغیرہ کا علم نہیں تھا اس لیے میری بیوی گئی تھی وہ خود بیچ کر آتی تھی اور رقم مجھے دیتی تھی۔ انگوٹھی میں خود بیچنے گیا تھا میرے ساتھ شاید میرا بیٹا یا کوئی اور تھا۔

بیوی کا بیان:

تقریبا 2006 یا 2007 میں سونا بیچا گیا تھا اور ایک ہی دفعہ میں نہیں بیچا گیا تھا بلکہ ایک سے زیادہ دفعہ میں بیچا گیا تھا ایک دفعہ میری نند ساتھ گئی ایک دفعہ یہ خود بھی بیچنے گئے تھے اسی طرح ان کے بھائی بھی ایک دفعہ میرے ساتھ گئے  تھے اور ان کی ضروریات کے لیے سونا بیچا گیا تھا سونا بیچ کر ساری رقم انہی کو دی تھی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ طلاق کے بعد عدت گزرنے تک عورت اپنے سابقہ شوہر کے گھر میں ہی رہے گی اور عدت گزرنے تک عورت کے اخراجات بھی شوہر کے ذمے ہوں گے عدت کے بعد شوہر کی اجازت سے شوہر کے گھر میں رہ سکتی ہے بغیر اجازت کے رہنا جائز نہیں البتہ میاں بیوی والا تعلق رکھنا  کسی صورت بھی جائز نہ ہوگا۔

2۔ وصیت غیر وارث کے لیے ہوتی ہے وارث کے لیے وصیت نہیں ہوتی لہذا آپ کا اپنے کسی ایک بچے کے نام وصیت کرنا درست نہیں۔

3۔ میراث کا تعلق موت سے ہے لہذا جب تک آپ زندہ ہیں آپ کی جائیداد میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔

4۔ سونا بیچ کر جتنی رقم شوہر کو دی گئی وہ اگر بطور قرض دی تھی تو اتنی رقم واپس کرنا شوہر کے ذمے ہے اور بیوی کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے اتنی چاندی کا مطالبہ کرے جتنی چاندی قرض دی گئی رقم کے عوض میں قرض دیتے وقت آتی تھی۔

5۔ آپ کی زندگی میں آپ کی جائیداد میں کسی کا کوئی حصہ نہیں بنتا

6۔شرعا آپ دوسرا نکاح کر سکتے ہیں ۔

ہندیہ(1/557) میں ہے:

المعتده عن الطلاق تستحق النفقه والسكنى كانت الطلاق رجعيا او بائنا او ثلاثا حاملا كانت المراةا ولم تكن.

شامی(5/429) میں ہے:

فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا كل ما يقال او يوزن او يعد متقاربا.

شامی(3/847) میں ہے:

مطلب الديون تبقى بامثالها .

شرح المجلہ(مادہ:97) میں ہے:

 لا يجوز لاحد ان ياخذ مال احد بلا سبب شرعى.

شامی (4/ 533) میں ہے:

«‌أما ‌إذا ‌غلت ‌قيمتها أو انتقصت فالبيع على حاله ولا يتخير المشتري، ويطالب بالنقد بذلك العيار الذي كان وقت البيع كذا في فتح القدير. وفي البزازية عن المنتقى غلت الفلوس أو رخصت فعند الإمام الأول والثاني، أولا ليس عليه غيرها، وقال: الثاني ثانيا عليه قيمتها من الدراهم يوم البيع والقبض وعليه الفتوى، وهكذا في الذخيرة«والخلاصة عن المنتقى، ونقله في البحر وأقره، فحيث صرح بأن الفتوى عليه في كثير من المعتبرات، فيجب أن يعول عليه إفتاء وقضاء، ولم أر من جعل الفتوى على قول الإمام هذا خلاصة ما ذكره المصنف – رحمه الله تعالى – في رسالته: بذل المجهود في مسألة تغير النقود»

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (6/655) میں ہے:

«(‌ولا ‌لوارثه وقاتله مباشرة) لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام: لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث»

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (3/538) میں ہے:

قال: ‌ولهما ‌أن ‌يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الازواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى

وسئل شيخ الاسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهمامفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الازواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف

«(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك»

السراجی فی المیراث(ص:2) میں ہے:

ما بقى بعد الميت من ماله صافيا عن تعلق حق الغير بعينه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved