- فتوی نمبر: 2-36
- تاریخ: 06 جولائی 2008
استفتاء
آج سے بیس بائیس سال قبل ہم تین بھائیوں نے باہمی مشاورت سے ایک پلاٹ خریدا ، **** بھائی نے اس کی قیمت مبلغ /90000 نوے ہزار روپے ادا کی مگر مسمی مذکور نے اس پلاٹ کا انتقال اپنے بڑے بھائی*** کے نام کروادیا،*** نے اپنی وفات سے قبل ا س پلاٹ کا انتقال بلا معاوضہ (ہدیة)*** کے نام کروادیا، *** عرصہ تقریباً پینتیس سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔*** نے اس متذکرہ پلاٹ کا قبضہ اپنے چھوٹے بھائی (مستفتی)***کو دے دیا، چونکہ*** پلاٹ خرید نے سے قبل ہی مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور تاحال ہیں وہ جب بھی پاکستان آتے تواپنے بھائی *** کو یہ کہتے کہ:
“بھائی! آپ اس پر عمارت بناؤاور استعمال کرو، ہم نے اس سے کیالینا ہے؟ ہمیں تو اس پلاٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، میں تو مدینہ منورہ میں رہتاہوں اور وہیں پر مرجاناہے، ہمیں ادھر آکےکیاکرنا ہے؟”
*** نے اٹھارہ سال قبل اپنے بھائی کے باربار اصرار پراس پلاٹ پر تعمیر کی اور اس وقت سے تاحال وہیں قیام پذیرہے اور گیس ، ٹیلی جون وغیرہ بھی لگوایا،*** اس کو اپنے بھائی کی طرف سے ہدیہ سمجھتارہا اور اس پر اپناکلی قبضہ بھی رکھا اور اس پر برابر تعمیرکرتارہا۔اس بیس سال کے عرصہ میں کبھی محبوب الہی نے نہ توکوئی اعتراض کیا بلکہ اس پر مسرت کا اظہارکرتارہا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ*** اپنے *** سے مکان خالی کروانا چاہتاہے اور اپناسامان فوری طورپر یہاں سے نکالو۔
اب سوال یہ ہے کہ ***اس بات کا شرعی طور پر مجاز ہے کہ وہ اپنے بھائی سے مکان کی واپسی کا مطالبہ کرے یانہیں ؟ جبکہ اس پر تمام تر تعمیر*** نے کروائی ہے اور اس کےتصرف میں ہے، اگر *** اس کو اپنی ملکیت نہ سمجھتاتواس پر تعمیرہی نہ کرتا، اگر*** اپنے آپ کو اس پلاٹ کا مالک سمجھتاتو *** کو تعمیر پر اصرار کیوں کرتا؟ اگر اس کو کوئی اعتراض تھاتواس کی تعمیر پر بیس سال کیوں خاموش رہا؟ تعمیر کے اخراجات کوں نہ اداکئے؟
اس مسئلہ کا شرعی حل بتلائیں کہ اس پلاٹ اورتعمیر کا مالک کون ہے؟
\
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں عمارت*** کی ملکیت ہے اور زمین *** کی ملکیت ہے، لہذا اگر عمارت کی قیمت زمین کی قیمت سے زیادہ ہے تو فاروق زمین کی قیمت***کو دے کرزمین اس سے لے سکتاہے۔اوراگرعمارت کی قیمت موجودہ ریٹ کے حساب سے زمین سے کم ہے اور *** زمین کی قیمت دینے پر تیا رہے تو وہ زمین کی قیمت *** کو دے کر زمین اس سے لے سکتاہے ۔کیونکہ***نے ***کو ایک قسم کا دھوکہ دیاہے۔اور اگر زمین کی قیمت نہیں دے سکتا تو اپنی عمارت کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے قیمت*** سے وصول کرسکتاہے۔
نوٹ: یہاں زمین کی قیمت سے مراد چاندی میں وہ قیمت ہے جو مکان کی تعمیر کے وقت تھی یعنی تعمیر کے وقت زمین کی اگر قیمت ایک لاکھ روپے تھی اور اس وقت ایک لاکھ کی ایک ہزار تولہ چاندی آتی تھی اور اب ایک ہزار تولہ چار لاکھ کی آتی ہے تو قیمت چار لاکھ ہوگی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved