• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پرانی قبر میں نئی میت دفنانے کا حکم

  • فتوی نمبر: 24-220
  • تاریخ: 20 اپریل 2024

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جون 2003 میں میری ساس کا انتقال ہوا، پھر ستمبر 2019 میں ان کی بہن کا انتقال ہوا تو  جگہ کی قلت کی وجہ سے ان کو ان کی بہن کی  قبر میں دفن کر دیا گیا، اب کچھ دن پہلے مئی 2021 میں میری اہلیہ کا بھائی فوت ہوا تو قبرستان میں جگہ کی شدید قلت کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہو گیا، اس لیے ہم نے ارادہ کیا کہ اس کو اس کی والدہ اور خالہ کی قبر میں دفن کر دیں، لیکن قبر کی جگہ مل گئی اور ہم نے انہیں علیحدہ قبر میں دفنا دیا،  آئندہ پھر یہ مسئلہ پیش آئے گا، کیونکہ ہمارے خاندان کے بزرگ افراد اسی قبرستان میں دفن ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں ہمارے خاندان کے لوگ اسی قبرستان میں دفن ہوں، لیکن قبرستان میں جگہ ختم ہو گئی ہے، آیا اس صورت میں ہم کسی قریبی عزیز کی پرانی قبر میں نئی میت کو دفن کر سکتے ہیں؟ یہ قبرستان انجینئرنگ یونیورسٹی کے سامنے گڑھی شاہو لاہور میں واقع ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خاندان کے تمام افراد کو ایک ہی قبرستان میں دفن کرنا ضروری نہیں، اس لیے اگر اس قبرستان میں جگہ موجود نہ ہو تو پھر کسی دوسرے قریبی قبرستان میں قبر کے لیے جگہ لے لیں، البتہ اگر دوسرا قبرستان زیادہ دور ہو تو مجبوری کی وجہ سے ایسی پرانی اور بوسیدہ قبر میں نئی میت کو دفن کر سکتے ہیں جس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ میت مٹی ہو چکی ہو گی، ایسی صورت میں  قبر کھودتے ہوئے اگر ہڈیاں نکليں تو پورے احترام کے ساتھ قبر کے ایک جانب رکھ کر مٹی کی آڑ بنا دی جائے۔

شامی (163/3) میں ہے:

قال في الفتح: ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب……..وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلاء مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اھ. وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اھ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اه.

قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلإ اذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره، وإن صار الأول ترابا لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جدا وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكما عاما لكل أحد فتأمل.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved