• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پرانی قبریں کھود کر نئی قبریں بنانا

  • فتوی نمبر: 27-357
  • تاریخ: 16 جولائی 2022

استفتاء

ایک گاؤں والوں کا مشترک قبرستان ہے جو بھر گیا ہے کچھ قبور نئی ہیں، کچھ پرانی ہیں اور کچھ بہت پرانی یعنی 60،70 سال پرانی ہیں۔ اس گاؤں والوں نے دوسری جگہ قبرستان کیلئے منتخب کی ہے لیکن وہ جگہ آبادی سے دور ہے اب گاؤں والوں کا آپس میں اس بات میں اختلاف ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ ان بہت پرانی قبروں کو کھولا جائے اور ان میں اموات کو دفنایا جائےاور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ دوسری جگہ موجود ہے اب شرعی نقطۂ نظر سے کیا ان بہت پرانی قبروں کو کھلوانا اور میت دفنانا دوسری جگہ کے دور ہونے کی وجہ سے جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دونوں باتیں درست ہیں، نئی جگہ دفنانا بھی درست ہے اورجو قبریں اتنی پرانی ہوچکی ہوں کہ ان کے بارے میں غالب گمان ہو کہ ان میں دفن  شدہ میت بالکل مٹی بن چکی ہوگی تو ایسی قبریں کھود کر  ان میں نئی تدفین کرنا بھی جائز ہے۔ (البتہ اگر ایسی قبر کو کھودتے وقت اتفاقاً کوئی ایک آدھ ہڈی ظاہر ہوگئی تو اس کو  اسی قبر میں ایک طرف  رکھ کر اس  کے اور میت کے درمیان آڑ کردیں)۔

شامی (3/164) میں ہے:

وقال الزيلعي ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اه قال في الإمداد ويخالفه ما في التاترخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين ويوجد موضع فارغ يكره ذلك اه قلت لكن في هذا مشقة عظيمة فالأولى إناطة الجواز بالبلا إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره وإن صار الأول ترابا لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر على أن المنع من الحفر إلى أن لا يبقى عظم عسر جدا وإن أمكن ذلك لبعض الناس لكن الكلام في جعله حكما عاما لكل أحد فتأمل  

فتاویٰ عالمگیری (1/ 167) میں ہے:

ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه كذا في التبيين

فتح القدير (2/ 141) میں ہے:

ولا يدفن اثنان في قبر واحد إلا لضرورة ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له إلا عظم إلا أن لا يوجد بد فيضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجزا من تراب

فتاویٰ محمودیہ(9/97) میں ہے:

جواب: اگر قبر اتنی پرانی ہوجائے کہ میت بالکل مٹی بن جائے تو اس قبر میں دوسری میت کو دفن کرنا درست ہے، ورنہ بلا ضرورت ایسا کرنا منع ہے اور بوقت ضرورت جائز ہے اورایسی حالت میں جب میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ قبر میں موجود ہوں تووہ ایک طرف علیحدہ قبر میں رکھ دی جائیں اگر میت بالکل صحیح سالم قبر میں موجود ہو تب بھی بوقت ضرورت اس کے برابر اسی قبر میں دوسری میت کو رکھنا جائز ہے، لیکن میت قدیم اورمیت جدید کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved