- فتوی نمبر: 21-286
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
قبروں کو سجدہ کرنا حرام ہے۔ (صحیح بخاری: 1330 ۔ابو داؤد:3227)
قبروں کو پختہ کرنا حرام ہے۔ (صحیح مسلم:2247۔ ابو داؤد:3225)
قبروں پر لکھنا حرام ہے۔ (ابو داؤد:3226۔ ابن ماجہ: 1563)
قبروں پر (موم بتی، دیے، چراغ جلانا) حرام ہے۔ (سنن نسائى: 2047)
قبروں پر (عرس اور میلے) لگانا حرام ہے۔ (ابو داؤد:2042۔ مسند احمد:8790)
قبروں پر (مجاور بن کر )بیٹھنا حرام ہے۔ (ابو داؤد:3225۔ صحیح مسلم:2245)
قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا حرام ہے۔ (صحيح مسلم:2250۔ابو داؤد:3229)
قبروں پر (مرغا، بکرا، گائے وغیرہ) ذبح کرنا حرام ہے۔ (ابو داؤد:3222۔ مسند احمد: 954)
وفات سے پانچ دن پہلے نبی ﷺ کی اپنی امت کو آخری وصیت” یہ بات توجہ سے سن لو! تم میں سے پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتی تھی۔خبردار تم قبروں کو سجدہ گاہ مت بنانا۔میں تمہیں اس بات سے منع کرتا ہوں۔ (صحيح مسلم: 1188)
اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ تمام احادیث صحیح ہیں ۔البتہ قبر پر لکھنے سے مراد یہ ہے کہ قبر پر اللہ یا اس کے رسول اللہ ﷺ کا نام یا قرآنی آیات یا میت کی تعریف یا اشعار لکھنا نا جائز ہےالبتہ اگر صرف میت کا نام اور اس کی تاریخ وفات کسی کتبہ پر لکھ کر لگا دی جائے تو یہ نا جائز نہیں۔ اس میں یہ احتیاط کی جائے کہ کتبہ قبر کے سرہانے سے کچھ ہٹ کر لگایا جائے۔اسی طرح قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا اس صورت میں ناجائز ہے جب نمازی اور قبر کے درمیان کوئی دیوار وغیرہ کا پردہ نہ ہو۔
سنن ابو داؤد، کتاب الجنائز، باب فی جمع الموتی فی قبر والقبر یعلم،حدیث نمبر 3206 ہے:
"۔۔۔عن المطلب، قال: لما مات عثمان بن مظعون، اخرج بجنازته فدفن، امر النبي ﷺ رجلا ان ياتيه بحجر، فلم يستطع حمله، فقام إليها رسول الله ﷺ، وحسر عن ذراعيه، قال كثير: قال المطلب: قال الذي يخبرني ذلك عن رسول الله ﷺ، قال: كاني انظر إلى بياض ذراعي رسول الله ﷺ حين حسر عنهما، ثم حملها فوضعها عند راسه، وقال: اتعلم بها قبر اخي، وادفن إليه من مات من اهلي”
(مطلب کہتے ہیں جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ لے جایا گیا اور وہ دفن کئے گئے تو نبی اکرم ﷺنے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا وہ اٹھا نہ سکا تو آپ ﷺ اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اپنی دونوں آستینیں چڑھائیں۔ کثیر (راوی) کہتے ہیں: مطلب نے کہا: جس نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مجھ سے بیان کی ہے وہ کہتے ہیں: گویا میں آپ ﷺ کے دونوں بازوؤں کی سفیدی جس وقت کہ آپﷺ نے انہیں کھولا دیکھ رہا ہوں، پھر آپ ﷺ نے اس کو اٹھا کر ان کے سر کے قریب رکھا اور فرمایا: میں اسے اپنے بھائی کی قبر کی پہچان کے لیے لگا رہا ہوں، میرے خاندان کا جو شخص مرے گا میں اسے انہیں کے آس پاس دفن کروں گا )
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، کتاب الجنائز، باب دفن المیت ، (مذكوره)حدیث نمبر 1711(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 192) میں ہے:
"في الأزهار يستحب أن يجعل على القبر علامة يعرف بها لقوله أعلم بها قبر أخي”
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، کتاب الجنائز، باب دفن المیت ،(كتابت سے نہی والی )حدیث نمبر 1709(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 190) میں ہے:
"(وأن يكتب عليها): قال المظهر: يكره كتابة اسم الله ورسوله والقرآن على القبر لئلا يهان بالجلوس عليه ويداس بالانهدام وقال بعض علمائنا وكذا يكره كتابة اسم الله والقرآن على جدار المساجد وغيرها قال ابن حجر وأخذ أئمتنا أنه يكره الكتابة على القبر سواء اسم صاحبه أو غيره في لوح عند رأسه أو غيره قيل ويسن كتابة اسم الميت لا سيما الصالح ليعرف عند تقادم الزمان لأن النهي عن الكتابة منسوخ كما قاله الحاكم أو محمول على الزائد على ما يعرف به حال الميت وفي قوله يسن محل بحث والصحيح أن يقال أنه يجوز”
رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 170) میں ہے:
"۔۔۔كما في كراهة السراجية وفي جنائزها : لا بأس بالكتابة إن احتيج إليها حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن
قال ابن عابدين: ( قوله لا بأس بالكتابة إلخ ) لأن النهي عنها وإن صح فقد وجد الإجماع العملي بها ، فقد أخرج الحاكم النهي عنها من طرق ، ثم قال : هذه الأسانيد صحيحة وليس العمل عليها ، فإن أئمة المسلمين من المشرق إلى المغرب مكتوب على قبورهم ، وهو عمل أخذ به الخلف عن السلف ا هـ ويتقوى بما أخرجه أبو داود بإسناد جيد { أن رسول الله ﷺ حمل حجرا فوضعها عند رأس عثمان بن مظعون وقال : أتعلم بها قبر أخي وأدفن إليه من تاب من أهلي } فإن الكتابة طريق إلى تعرف القبر بها ، نعم يظهر أن محل هذا الإجماع العملي على الرخصة فيها ما إذا كانت الحاجة داعية إليه في الجملة كما أشار إليه في المحيط بقوله وإن احتيج إلى الكتابة ، حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن فلا بأس به فأما الكتابة بغير عذر فلا حتى إنه يكره كتابة شيء عليه من القرآن أو الشعر أو إطراء مدح له ونحو ذلك حلية ملخصا”
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، کتاب الجنائز، باب دفن المیت ،(نماز سے نہی والی )حدیث نمبر 1698(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 178) کے تحت فرماتے ہیں:
"ولا تصلوا أي مستقبلين إليها لما فيه من التعظيم البالغ لأنه من مرتبة المعبود فجمع بين الإستحقاق العظيم والتعظيم البليغ قاله الطيبي ولو كان هذا التعظيم حقيقة للقبر أو لصاحبه لكفر المعظم فالتشبه به مكروه وينبغي أن تكون كراهة تحريم "
رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ (طبع : مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 2صفحہ نمبر52 ) میں ہے:
"وكذا تكره في أماكن كفوق كعبة وفي طريق ومزبلة ومجزرة ومقبرة
قال ابن عابدین: ( قوله : ومقبرة ) مثلث الباء ح. واختلف في علته ، فقيل لأن فيها عظام الموتى
وصديدهم وهو نجس وفيه نظر وقيل لأن أصل عبادة الأصنام اتخاذ قبور الصالحين مساجد ، وقيل لأنه تشبه باليهود ، وعليه مشى في الخانية ، ولا بأس بالصلاة فيها إذا كان فيها موضع أعد للصلاة وليس فيه قبر ولا نجاسة كما في الخانية ولا قبلته إلى قبر حلية "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved